بدھ، 26 جولائی، 2023
Imported post: Facebook Post: 2023-07-26T15:48:07
{گلی کی مسجد۔۔مولوی اور تالے۔۔}
۔۔
"چلو نکلو مسجد سے باہر۔۔۔مسجد کو تالہ لگانا ہے۔۔ "
آواز کی جانب دیکھا تو ایک چھوٹا مولوی ہاتھ میں تالہ اٹھائے کھڑا تھا۔۔
اور جیسے جیسے نمازی باہر نکل رہے تھے مسجد کو تالہ لگا رہا تھا۔۔
اور جو ایک دو بندے سستانے کے لئے کمر سیدھی کرنے لگتے وہ ان کو آوازیں دے کر باہر نکال دیتا۔۔
۔۔
یہ صرف ایک مسجد کا حال نہیں مجھے اپنے کام کی وجہ سے مختلف علاقوں میں جانا پڑتا ہے۔۔
تو وہاں دن کے وقت جب گرمی سخت ہو جائے تو نماز کے بعد مسجد آخری سہارا ہوتی ہے۔۔۔
جہاں دس پندرہ منٹ باہر کی گرمی سے بچا جا سکتا۔۔۔۔
۔۔۔۔
مگر ہاتھ میں تالہ اور منہ سے شعلے نکالتے مولوی مسجد سے نمازیوں کو ثواب سمجھ کر باہر نکالتے ہیں۔۔
۔۔
حالانکہ قادیا ۔۔ن ی وغیرہ کی عبادت گاہوں میں چلے جاو تو ہمہ وقت استقبالیہ میں ایک خوش شکل شخص مسکراہٹ سجائے آپ کا استقبال کرے گا۔۔آپ کے لئے بیٹھنے کا انتظام کرے گا۔۔ آپ تسلی سے ٹھنڈی ہواوں میں نماز پڑھیں گے۔۔
حالانکہ یہی اخلاق ہر گلی محلے کی مسجد کے مولوی کو اپنانے چاہیے۔۔
مگر ان کو مسجد میں نماز کے علاوہ بیٹھے لوگوں سے نفرت ہوتی ہے۔۔
ایک مولوی کا اصل مقصد ہی لوگوں کا تعلق اللہ سے جوڑنا ہے اور مسجد اللہ کا گھر ہے اللہ سے تعلق جوڑنے کے لئے ہی تبلیغی حضرات گھر گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر لوگوں کو مسجد کی طرف بلاتے ہیں۔۔اور جب کوئی بھولا بھٹکا کسی دن نماز کے علاوہ مسجد پہنچ جائے تو غصیلہ مولوی اسے دھکے دے کر باہر نکال دیتا ہے۔۔۔
پھر بعد میں جب لوگ مسجد نہیں آتے تو یہی مولوی کہتے ہیں کہ لوگ گمراہ ہو گئے بازار، سینما، پارک ہر جگہ لوگ موجود ہوتے ہیں۔۔مگر مسجد نہیں آتے۔۔
تو اے مولویوں۔۔۔!!
جس طرح دوکان پر آیا گاہک کوئی بھی دوکان دار دھتکارتا نہیں اس سے پیار سے پیش آتا ہے کیونکہ وہ اس کے لئے منافع کا ساماں ہے۔۔
تو اسی طرح نماز کے علاوہ مسجد میں بیٹھا شخص بھی آپ کے لئے اصل سرمایا ہے ، اس کو شربت پیش کرو۔۔
اس کے ساتھ ہنسی مزاق کرو اگر وہ لیٹنا چاہے اسے سرہانہ پیش کرو۔۔
کل وہ بندہ آپ کا معتقد ہو جائے گا۔۔
وہ خدا کے گھر میں آپ کو دیکھے گا تو نماز سے پہلے آپ کے ہاتھ چومے گا۔۔
۔۔
تو مہربانی کرو۔۔ویسے بھی مسجد چندے پر چلتی ہے اس کی پہلی اینٹ سے اخری اینٹ تک چندے کا پیسہ ہوتا ہے۔۔
اس کے تمام اخراجات مسجد میں چندے کے ڈبوں سے پورے کیے جاتے ہیں۔۔
تو اس سے پہلے کہ چندے بند ہو جائیں۔۔
ہاتھ میں تالے کے جگہ پانی کی جگ اٹھا لو۔۔
مسجد میں داخل ہونے والے ہر بندہ کو مہمان کی طرح سمجھو۔۔
۔۔
تحریر لکھنے کی وجہ۔۔:
ابھی تھوڑی دیر پہلے ڈھائی بجے ایک مولوی نے مسجد میں گھسنے نہیں دیا اور کہا ہے کہ کسی اور مسجد میں جا کر نماز پڑھو۔۔۔۔
غصہ تو بہت آیا۔۔مگر جانے دیا۔۔۔۔
اگر کسی کو اعتراض ہے مہربانی فرما کر اپنے محلے کی مسجد کو آباد کرے۔۔
بند مدرسہ میں رہ کر ان کے دماغ بند ہو جاتے ہیں۔۔اس لئے کسی باہر کے بندے کو ہی مسجد میں محنت کرنا ہو گی۔۔
اور مسجد کو آباد کرناپڑے گا۔۔
مگر کیا مولوی آپ کو محنت کرنے کے لئے مسجد میں زیادہ دیر بیٹھنے دے گا۔۔؟؟
والسلام۔۔۔
متین احمد
بےنام لکھاری
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں