پیر، 22 مئی، 2023

Rawalpindi #old_rawalpindi

 غزنی پور(راولپنڈی)کا ایک نایاب قصہ


(تاریخ کا ایک ایسا نادر قصہ جو مشہور ہونے سے رہ گیا)


یہ ان دنوں کی بات ہے..جب راولپنڈی "غزنی پور" ہوا کرتا تھا..


انگریزوں کا دور آ چکا تھا..

مگر انگریزوں نے ابھی یہاں ترقیاتی کام نہیں کیے تھے..

..

یہاں کے واسیوں کی ایک  پریشانی یہ تھی..کہ یہ شہر ہمیشہ جنگجؤوں کا راستہ رہنے کی وجہ سے کبھی خوشحال نہ ہو سکا تھا..


تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے:-

"باہر سے آنے والے ہر حملہ آور نے اسی کو راستہ بنایا تھا..خاص طور پر سنٹرل ایشیا سے آنے والے...آرین، ایرانی،تورانی اور پہلوی حکمرانوں نے..

پھر ان کے بعد غزنوی اور غوری نے بھی اسے نہ بخشا..."

اگر زیادہ ماضی میں چلے جائیں تو یونانیوں اور سکندر نے بھی اسی شہر کو اپنے گھوڑوں سے روندا تھا...

..

آج بھی ان تمام حملہ آوروں کی باقیات ٹیکسلا سے روات تک جا بجا قلعوں ، آثار قدیمہ اور کھنڈرات کی شکل میں موجود ہیں..


شیر شاہ سوری نے بھی جو جرنیلی سڑک قائم کی تھی..اس نے بھی آدھے راولپنڈی کو کچلنا مناسب سمجھا..


اسی طرح گکّھڑوں اور سکھوں کے مابین لڑائیوں سے اس شہر کا ایسا کباڑہ ہوا کہ قدیم راولپنڈی شہر (ٹیکسلا) کی بجائے ایک جدید شہر(جہاں فی الحال راولپنڈی ہے) قائم ہوا،

جس کا نام ایک ہندو بنیے نے اپنے نام "راول" پر رکھا..

یہاں تک کی معلومات  تو تاریخ کی کسی نہ کسی کتاب میں مل ہی جاتی ہے..


اس کے بعد کیا ہوا اس کے لئے میں نے جُستجو کی تو پُرکھوں کی ایک نادر و نایاب کتاب ملی جس میں کچھ یوں لکھا ہے..


"جب بہت سے جنگجؤوں نے اس شہر کا کباڑہ کر دیا تو پھر قدرت کو اس شہر پر رحم آیا تو انگریزوں نے یہاں ایک فوجی چھاؤنی قائم کی.. جس کے بنانے کے بعد کچھ بہتری ہوئی،مگر یہاں کے لوگوں کو خوشحالی نصیب نہ ہوئی..جس کی وجہ سے ان کی شادیاں بھی نہیں ہوتی تھی....


نادر و نایاب کتاب کے ایک اور بوسیدہ صفحے میں پھر یہ بھی لکھا ہے کہ


"پھر یہاں سے ایک "بزرگ عالی شان" کا گزر ہوا..

تو یہاں کے واسیوں نے اپنی اس خاص شکوہ شکایت کو ان کے حضور رکھا،وہ ایک عالی فہم شخص تھے...

انہوں نے اس شہر قدیمہ کا بغور دورہ کیا...

مسئلہ کا عقدہ ان کی فہم نے حل کر لیا تھا..

پھر انہوں نے اس شہر واسیوں کو ایک ایسی جگہ اکھٹا کیا جہاں آج کل "فوارہ چوک" ہے..

..

شہر کے واسیوں کو قرآن کی اس آیت کے ذریعے سمجھایا کہ 

"اللہ کبھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت خود نہیں بدلتے"..


"بزرگ عالی شان" نے شہر واسیوں کو ایک سفید و سرخ رنگ کا مائع بنانا سکھایا اور ایک خاص قسم کے درخت کی باریک ٹہنیوں اور پتوں کے ذریعے اس مائع کو گھر کی در و دیوار پر ایک خاص طریقے سے لگانا سکھایا....

کہتے ہیں وہ بزرگ کچھ عرصہ یہاں رہے..

لوگوں نے اپنے مکانات کو سرخ و سفید مائع سے مزین کیا تو وہ کسی حسینہ کے سرخ و سفید گالوں کی طرک چمکدار اور خوبصورت نظر آنے لگے..


شہر واسی جو پہلے گھر سے زیادہ باہر کھیتوں میں وقت کا ضیاع کرتے تھے..

اب گھروں میں رہنے لگے..

..

پھر ان بزرگوں نے ہی  شہر کے  کنواروں کو کنواریوں کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک کیا..


یوں جو بھی کنوارا گھر کو مزین کرتا جاتا تھا....

بزرگ عالی شان اس نصیحت کے ساتھ کہ "ایک مٹیالے بے رونق مکان کو تو مزین کر سکتا ہے تو ایک پر رونق کنواری کو ہم تیرے ساتھ بیاہ دیتے ہیں تاکہ تیرا مکان، ظاہری مزین ہونے کے ساتھ ساتھ اندرونی طور پر بھی مزین ہو جائے..."

..

پُرکھوں کی اس نایاب کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ


 "وہ بزرگ تو ہجرت کر گئے مگر ان کی بنائی روایت مسلسل چلتی رہی پھر اس کے بعد جو بھی کنوارا ایک مکان تیار کرتا پھر اس کو سرخ و سفید رنگ سے مزین کرتا بزرگوں کی دعاؤں سے اس کی شادی ہو جایا کرتی تھی...،،


آج بھی اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے اس قدیم غزنی پور، جدید راولپنڈی کے ایک کنوارے "احمد" نے گھر کو مزین کرنے کے لئے روزے کی حالت میں کچھ رنگ خریدا ہے...


اب ان "بزرگ عالی شان" کی آئندہ نسل سے دعاؤں کی اپیل ہے اس " خاص کنوارے" کے لئے بھی دعا کریں جب اس کا گھر مزین ہو جائے تو ایک کنواری اس کو پُر رونق بنانے کے لئے اس کا ہمیشہ ساتھ دے..


اب وہ بزرگ کون تھے یہ تو معلوم نہ ہو سکا..لیکن کیا پتہ آپ انہی بزرگوں کی اولادوں میں سے ہوں..؟


اس لئے آپ صرف دعا کریں..

شرف قبولیت بخشنا "خدائے واحد" کا کام ہے..


رنگین مائع کی تصویر بھی لگا رہا ہوں..

اب کوئی بھی پُرکھوں کی نادر ونایاب کتاب کا حوالہ اور ثبوت نہ مانگے،

میں نے ابھی بہت سے اور کام بھی کرنے ہیں...

#احمد -(متین احمد)

بےنام لکھاری

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں