پیر، 29 مئی، 2023

pencil

 


مال کی وجہ سے ہلاکت

 ایک شخص "ثعلبہ" فقر سے تنگ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا...

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی تنگ دستی کی شکایت کی اور آپ  سے اپنے لئے وسعت مال کی دعا کرنے کی گزارش کی....
اور کہنے لگا جب مال آئے گا..میں صدقہ خیرات کروں گا...
غریبوں کی مدد کروں گا....
..
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرما دی...
اس شخص کو اللہ نے اتنا مال دیا کہ پہلے تو اس نے اپنے شہر میں ہی مال مویشی رکھے تھے...
لیکن وہ اتنے زیادہ ہوتے گئے کہ اس نے شہر سے بار سکونت اختیار کر لی...اور اس مال میں وہ اتنا مشغول ہوا کہ آہستہ آہستہ جمعہ پڑھنا چھوڑ دیا..
پھر کچھ عرصہ بعد جماعت بھی چھوڑ دی...
لیکن ایک مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جب عامل کو زکوة لینے بھیجا تو...
اس نے جواب دے دیا کہ دین میں ٹیکس نہیں ہوتا..

عامل یہ جواب جب لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو اللہ کی طرف سے یہ أیات نازل ہوئی.
"ومنھم من عھد اللہ لئن آتنا من فضلہ لنصدقن ولنکونن من الصلحین.
فلما اتھم من فضلہ بخلوا بہ وتولوا وھم معرضون.
فاعقبھم نفاقا فی قلوبھم الی یوم یلقونہ بما اخلفوا اللہ ما وعدوہ وبما کانوایکذبون.(القران)
ان ایات  کا خلاصہ یہی واقعہ ہے...

تو اب اس ثعلبہ کو اس کے کسی ساتھی  نے بتایا کہ تیرے بارے میں یہ آیات نازل ہوئی ہے..
تو وہ بھاگا بھاگا آپ کے پاس آیا اور زکوة کے قبول کرنے کی عرض کی لیکن...اللہ کے نبی نے "فاعقبھم نفاقا" والی أیت سے سمجھ لیا تھا کہ اللہ نے قیامت کے دن تک اس کے دل میں نفاق ڈال دیا ہے..

اس لئے اللہ کے نبی نے اس کا مال قبول نہ کیا..
یہ شخص پھر حضرت ابوبکر صدیق رض کے دور میں بھی ایا..لیکن انہوں نے بھی قبول نہ کیا
اور حضرت عمر رض کے دور میں بھی أیا لیکن انہوں نے بھی اسے واپس بھیج دیا...
حضرت عثمان رض نے بھی قبول نہ کیا...
انکے دور میں پھر یہ مر گیا...

اب اس واقعہ کا مقصد کیا ہے...
اس سے بہت سے سبق حاصل ہوتے ہیں 
پہلا سبق جو میرے زہن میں آیا وہ یہی تھا کہ اللہ نے جس کو جتنی دولت دے ہے..وہ اس کے ہی لائق تھا...
زیادہ اور کم دونوں کی صورت میں اسی کا نقصان ہے...
اس شخص کو اللہ کے نبی سے برکت کی دعا کروانی چاہیے تھی لیکن...اس نے اللہ کے نبی سے کثرت کو طلب کیا...

دوسرا سبق یہ کہ اسلام کے احکام کو اس نے خفیف ہلکا سمجھ لیا تھا.. اور مزاق اڑانے لگ گیا تھا..
اور مال کی مشغولیت میں عبادات کو بھی بھول گیا اور یہ بھی بھول گیا کہ یہ مال اس کو کس کی دعا سے ملا تھا....

ہمیں چاہیےجو ہمیں اللہ نے دیا ہے اسی پر  قناعت کریں..اور اسلام کے احکام پر عمل کریں یا نہ کریں لیکن ذبان درازی سے بالکل اجتناب کریں...

متین احمد,راولپنڈ

 مدارس اور ان میں دی جانے والی تعلیم

میں نے  جب میٹرک مکمل کی تو میرے پاس تعلیم کا کوئی خاص منصوبہ نہیں تھا کہ آگے کیسی تعلیم حاصل کرنی چاہیے،میٹرک میں نےکمپیوٹر سائنس میں کی تھی

 

paper chemistry -پنجاب بورڈ کے تعلیمی نظام کی حالت

 آج کزن کا دسویں کا کیمسٹری کا پیپر تھا۔۔

اس کی پریکٹیکل کے پیپر کی طرف بالکل توجہ نہیں تھا۔۔
کیونکہ اسکول والوں نے اس طرف توجہ ہی نہیں کی اور سر نے بھی کہا تھا کہ لکھی لکھائی پریکٹیکل کی کتابیں خرید لیں اور بس۔۔۔"
رات کو میں نے اس کو تھوڑا موٹیویٹ کیا اور بتایا کہ پریکٹیل کے پیپر میں تجربات ہوتے ہیں جن کو امتحان کی جوابی شیٹ میں لکھا جاتا ہے۔۔۔۔اور پھر وہاں موجود ممتحن پریکٹیکل کی کاپی چیک کرتے ہیں اور پھر وائیوا کے طور پر زبانی سوالات بھی پوچھے جاتے ہیں۔۔
رات کو بارہ بجے تک اس کو یوٹیوب پر کیمیکل لیب کی ویڈیوز بھی دکھائی اور بتایا کہ باہر ممالک میں اس طرح نویں دسویں کے بچوں کو بھی پریکٹیکل سکھایا جاتا ہے۔۔
۔۔
ابھی صبح پیپر دے کر آیا تو پوچھا:- ہاں جی پریکٹیکل کیسا رہا۔۔؟
کہنے لگا:- کہ امتحان میں جو سوالات تھے سر نے تمام بچوں کو کہا پریکٹیکل کی کتاب جو لائے ہو اسی میں سے دیکھ کر لکھو اور بس امتحان ختم۔۔۔"
اور میں جو یہ سوچ رہا تھا کہ بچے کی تعلیمی حوالے سے پنجاب بورڈ کے تحت تربیت اچھی ہو گی۔۔مگر میں غلطی پر تھا۔۔
پاکستان کے تعلیمی نظام نے اس تربیت کی دھجیاں ادھیڑ دی۔۔
اب اپ ہی بتائیں ملک ترقی نوجوانوں سے ہی کرتا ہے اور جب نوجوانوں کو سکھانے یعنی پریکٹیکل کے مواقع ہی فراہم نہ کیے جائیں تو وہ صرف رٹا مار کر ملک کی ترقی میں کیا کردار ادا کر سکیں گے۔۔۔؟؟
براہ مہربانی ایسے اسکول اور کالج جن میں پریکٹیکل کے بغیر صرف پڑھایا جاتا ہے ان کو بند کر دینا چاہیے۔۔۔۔
پریکٹیکل کے بغیر کوئی علم مکمل نہیں ہوتا۔۔اور پریکٹیکل بغیر استاد اور ضروری اشیاء کے ممکن ہی نہیں۔۔
اب کوئی یہ نہ کہے کہ دسویں کے بچوں کو پریکٹیکل کروانا ممکن نہیں۔۔!!

جمعرات، 25 مئی، 2023

buisness water -شربت کا کاروبار

 بازار میں بیٹھے اس شربت والے سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ گرمی اور رش والے دن میں پانچ،چھ ہزار کی دیہاڑ بھی لگ جاتی ہے۔۔اور روزانہ کے دو تین ہزار تو کہیں نہیں گئے۔۔

مہینہ کا حساب لگا لیں۔۔
انویسمنٹ میں صرف دو کولر ہوں اور شربت بنانے کا سامان بس کمائی شروع۔۔۔نہ کوئی تعلیم نہ کوئی تجربہ۔۔
ہم لوگ کام تو ایسا ڈھونڈتے ہیں جس کو کرتے ہوئے ہمارا مقام و عزت بلند ہو۔۔مگر قابلیت ہم میں ایسی شربت فروش جیسی بھی نہیں ہوتی۔۔۔
اس لئے اگر آپ کو کام نہیں ملتا تو کسی دن شربت بیچ کر دیکھے۔۔شاید آپ کو مزہ آ جائے۔۔


پیر، 22 مئی، 2023

*دین اسلام میں مال کی اہمیت * Importance of wealth in Islam

 *دین اسلام میں مال کی اہمیت *


(مولوی حضرات اس کا مطالعہ ضرور کریں)

نبی کریم (ص) نے فرمایا دین اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے..
کلمہ شہادت، نماز ،روزہ ،حج، زکوة 
بنیاد عمارت کے اس نچلے حصے کو کہتے ہیں جس پر پوری عمارت کا دارومدار ہوتا ہے..
اگر بنیاد کمزور یا ناقص ہے تو عمارت کسی بھی وقت گر  سکتی ہے...

اب دین اسلام کی بنیاد جن پانچ چیزوں پر ہے..
ان میں سے دو اشیاء یعنی زکوة اور حج ایسی ہیں جن کا تعلق مال سے ہے...
اب اگر کسی شخص کے پاس مال ہی نہیں ہے وہ اپنے دین کی عمارت کو کس طرح قائم رکھے گا..

اس لئے تو اللہ کے نبی (ص) نے فرمایا تھا..
"کاد  الفقر ان یکون کفرا"
قریب ہے کہ فقر انسان کو کفر تک لے جائے..

جب انسان فقیر ہو گا تو اس کے اسلام کی بنیاد ہی کمزور ہو گی..جب بنیاد کمزور ہو گی..تو وہ چاہے زندگی ساری قرآن اور حدیث کے الفاظ و معانی پڑھتا، پڑھاتے رہے..
اس کا اسلام کے ساتھ رشتہ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے...

اللہ کے نبی نے تب ہی تو فرمایا تھا..
"طلب کسب الحلال فریضة بعد الفریضہ"
حلال کمانے کی طلب فرائض کے بعد فرض ہے..

اسی طرح بخاری کی ایک حدیث ہے..
"ما اکل احد طعاما قط خیرا من ان یاکل من عمل یدیہ وان نبی اللہ داؤد علیہ السلام کان یاکل من عمل یدیہ"(بخاری)
سب سے بہترین کھانا وہی ہے جو انسان اپنے ہاتھ کی کمائی اے کھائے اللہ کے نبی داؤد (ع) اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے..

اسی طرح دوسری جگہ فرمایا:-

"التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشھداء"(ترمذی)
سچا ایمانت دار تاجر نبیوں سچوں اور شھداء کے ساتھ ہو گا..
اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا

 "ما من مومن یغرس غرسااور یزرع زرعا فیاکل منہ طیر او انسان او بھیمة الا کان لہ صدقة"(بخاری)
کوئی شخص اس لئے درخت یا کھیتی اگاتا ہے تاکہ اس سے انسان پرندے یا جانور کھائیں تو یہ اس کے لئے صدقہ ہے..

اسی طرح اللہ کے نبی نے جائز مال کی تعریف کچھ اس طرح کی ہے "نعم المال الصالح للمرء الصالح"
اچھا مال اچھے آدمی کے لئے نعمت ہے..

یہ سب فرمانے کہ وجہ کیا ہوئی تھی..
کیونکہ اللہ کے نبی کو پتا تھا..

"لیاتین علی الناس زمان لا ینفع فیہ الا الدینار والدراھم"(رواہ احمد)
لوگوں پر ایسا زمامہ ضرور بالضرور آئے گا اس میں صرف دراھم اور دیناروں ہی فائدہ پہنچائیں گے..
(یعنی مال و دولت)
..
اب اگر کوئی غیر عالم مال نہیں کماتا تو اس کی دین کی بنیاد کمزور بھی ہو گی تو خیر ہے کیونکہ لوگوں کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہیں..نہ ہی اس کا کفر لوگوں کو دین سے متنفر کرے گا..
وہ اگر مالی کمزوری کی وجہ سے گمراہ ہو بھی جائے تو صرف اسی کا نقصان ہے..

مگر ایک عالم جو مال نہیں کماتا اور پھر اس پر فقر آجاتا ہے..

فقر کی وجہ سے وہ کفریہ کلمات کہتا ہے تو اس عالم کے ساتھ بہت سے لوگ بھی دین سے متنفر ہوتے ہیں..

اس لئے اگر کوئی ایسا عالم ہے جس کے مالی حالات کمزور ہیں یا جس کی خواہشات اور اخراجات زیادہ ہیں تو اس  عالم کو چاہیے کہ اپنے گھر، مسجد، مدرسہ سے باہر نکلے اور اللہ کے نبی (ص) کے مال کمانے والے فرمان پر عمل کرتا ہوا مال کمانے کی سعی کرے
 تاکہ کل معاشرے میں وہ عزت دار طریقے سے جی سکے...

بہت سے سست اور نکمے مولویوں کو میں نے معاشی مسائل کی وجہ سے روتے دیکھا ہے وجہ صرف ان کی سستی اور نااہلی ہوتی ہے اور پھر اپنی نااہلی کو وہ دین کے سر ڈال کر دوسرے لوگوں کو بھی دین اسلام سے متنفر کرتے ہیں..

اس لئے میرے عالم بھائیوں دین اسلام کی بنیاد مال کے بغیر  مضبوط نہیں ہو سکتی..
مال کمائیں تاکہ أپ کا دین مضبوط ہو ورنہ پچاس سال قرآن پڑھنے پڑھانے کے بعد بھی آپ کسی بھی وقت گمراہ ہو سکتے ہیں...

 میرے زہن میں جو احادیث تھی.میں نے ذکر کر دی ہیں.. بے شمار احادیث مال کی اہمیت اور مال کمانے کے طریقوں پر موجود ہیں..
مولوی حضرات کا ان کا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے..
مال کمانا اس زمانے میں دین کی بقاء کے لئے بہت ضروری ہے..
#احمد-(متین احمد)
بےنام لکھاری

Rawalpindi #old_rawalpindi

 غزنی پور(راولپنڈی)کا ایک نایاب قصہ


(تاریخ کا ایک ایسا نادر قصہ جو مشہور ہونے سے رہ گیا)


یہ ان دنوں کی بات ہے..جب راولپنڈی "غزنی پور" ہوا کرتا تھا..


انگریزوں کا دور آ چکا تھا..

مگر انگریزوں نے ابھی یہاں ترقیاتی کام نہیں کیے تھے..

..

یہاں کے واسیوں کی ایک  پریشانی یہ تھی..کہ یہ شہر ہمیشہ جنگجؤوں کا راستہ رہنے کی وجہ سے کبھی خوشحال نہ ہو سکا تھا..


تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے:-

"باہر سے آنے والے ہر حملہ آور نے اسی کو راستہ بنایا تھا..خاص طور پر سنٹرل ایشیا سے آنے والے...آرین، ایرانی،تورانی اور پہلوی حکمرانوں نے..

پھر ان کے بعد غزنوی اور غوری نے بھی اسے نہ بخشا..."

اگر زیادہ ماضی میں چلے جائیں تو یونانیوں اور سکندر نے بھی اسی شہر کو اپنے گھوڑوں سے روندا تھا...

..

آج بھی ان تمام حملہ آوروں کی باقیات ٹیکسلا سے روات تک جا بجا قلعوں ، آثار قدیمہ اور کھنڈرات کی شکل میں موجود ہیں..


شیر شاہ سوری نے بھی جو جرنیلی سڑک قائم کی تھی..اس نے بھی آدھے راولپنڈی کو کچلنا مناسب سمجھا..


اسی طرح گکّھڑوں اور سکھوں کے مابین لڑائیوں سے اس شہر کا ایسا کباڑہ ہوا کہ قدیم راولپنڈی شہر (ٹیکسلا) کی بجائے ایک جدید شہر(جہاں فی الحال راولپنڈی ہے) قائم ہوا،

جس کا نام ایک ہندو بنیے نے اپنے نام "راول" پر رکھا..

یہاں تک کی معلومات  تو تاریخ کی کسی نہ کسی کتاب میں مل ہی جاتی ہے..


اس کے بعد کیا ہوا اس کے لئے میں نے جُستجو کی تو پُرکھوں کی ایک نادر و نایاب کتاب ملی جس میں کچھ یوں لکھا ہے..


"جب بہت سے جنگجؤوں نے اس شہر کا کباڑہ کر دیا تو پھر قدرت کو اس شہر پر رحم آیا تو انگریزوں نے یہاں ایک فوجی چھاؤنی قائم کی.. جس کے بنانے کے بعد کچھ بہتری ہوئی،مگر یہاں کے لوگوں کو خوشحالی نصیب نہ ہوئی..جس کی وجہ سے ان کی شادیاں بھی نہیں ہوتی تھی....


نادر و نایاب کتاب کے ایک اور بوسیدہ صفحے میں پھر یہ بھی لکھا ہے کہ


"پھر یہاں سے ایک "بزرگ عالی شان" کا گزر ہوا..

تو یہاں کے واسیوں نے اپنی اس خاص شکوہ شکایت کو ان کے حضور رکھا،وہ ایک عالی فہم شخص تھے...

انہوں نے اس شہر قدیمہ کا بغور دورہ کیا...

مسئلہ کا عقدہ ان کی فہم نے حل کر لیا تھا..

پھر انہوں نے اس شہر واسیوں کو ایک ایسی جگہ اکھٹا کیا جہاں آج کل "فوارہ چوک" ہے..

..

شہر کے واسیوں کو قرآن کی اس آیت کے ذریعے سمجھایا کہ 

"اللہ کبھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت خود نہیں بدلتے"..


"بزرگ عالی شان" نے شہر واسیوں کو ایک سفید و سرخ رنگ کا مائع بنانا سکھایا اور ایک خاص قسم کے درخت کی باریک ٹہنیوں اور پتوں کے ذریعے اس مائع کو گھر کی در و دیوار پر ایک خاص طریقے سے لگانا سکھایا....

کہتے ہیں وہ بزرگ کچھ عرصہ یہاں رہے..

لوگوں نے اپنے مکانات کو سرخ و سفید مائع سے مزین کیا تو وہ کسی حسینہ کے سرخ و سفید گالوں کی طرک چمکدار اور خوبصورت نظر آنے لگے..


شہر واسی جو پہلے گھر سے زیادہ باہر کھیتوں میں وقت کا ضیاع کرتے تھے..

اب گھروں میں رہنے لگے..

..

پھر ان بزرگوں نے ہی  شہر کے  کنواروں کو کنواریوں کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک کیا..


یوں جو بھی کنوارا گھر کو مزین کرتا جاتا تھا....

بزرگ عالی شان اس نصیحت کے ساتھ کہ "ایک مٹیالے بے رونق مکان کو تو مزین کر سکتا ہے تو ایک پر رونق کنواری کو ہم تیرے ساتھ بیاہ دیتے ہیں تاکہ تیرا مکان، ظاہری مزین ہونے کے ساتھ ساتھ اندرونی طور پر بھی مزین ہو جائے..."

..

پُرکھوں کی اس نایاب کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ


 "وہ بزرگ تو ہجرت کر گئے مگر ان کی بنائی روایت مسلسل چلتی رہی پھر اس کے بعد جو بھی کنوارا ایک مکان تیار کرتا پھر اس کو سرخ و سفید رنگ سے مزین کرتا بزرگوں کی دعاؤں سے اس کی شادی ہو جایا کرتی تھی...،،


آج بھی اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے اس قدیم غزنی پور، جدید راولپنڈی کے ایک کنوارے "احمد" نے گھر کو مزین کرنے کے لئے روزے کی حالت میں کچھ رنگ خریدا ہے...


اب ان "بزرگ عالی شان" کی آئندہ نسل سے دعاؤں کی اپیل ہے اس " خاص کنوارے" کے لئے بھی دعا کریں جب اس کا گھر مزین ہو جائے تو ایک کنواری اس کو پُر رونق بنانے کے لئے اس کا ہمیشہ ساتھ دے..


اب وہ بزرگ کون تھے یہ تو معلوم نہ ہو سکا..لیکن کیا پتہ آپ انہی بزرگوں کی اولادوں میں سے ہوں..؟


اس لئے آپ صرف دعا کریں..

شرف قبولیت بخشنا "خدائے واحد" کا کام ہے..


رنگین مائع کی تصویر بھی لگا رہا ہوں..

اب کوئی بھی پُرکھوں کی نادر ونایاب کتاب کا حوالہ اور ثبوت نہ مانگے،

میں نے ابھی بہت سے اور کام بھی کرنے ہیں...

#احمد -(متین احمد)

بےنام لکھاری

جمعہ، 19 مئی، 2023

AL Qadir University trust-القادر یونیورسٹی ٹرسٹ #University #Al-qadir #trust

 AL Qadir University -القادر یونیورسٹی 

۔تحریر :متین احمد

نوٹ:یہ ایک معلوماتی تحریر ہے اس میں لکھی گئی معلومات وکی پیڈیا اور القادر یونیورسٹی کی آفیشل ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل سے حاصل کی گئی ہے

القادر یونیورسٹی پروجیکٹ ٹرسٹ عمران خان صاحب نے اپنے دور حکومت میں شروع کروایا،

اس پروجیکٹ کے تحت القادر یونورسٹی تعمیر کی گئی،جس کے بنانے کا مقصد دنیاوی ،تعلیم کے ،ساتھ ساتھ طلباء کو دین کی تعلیم بھی جدید طریقوں سے فراہم کرنا

 القادر یونیورسٹی کے لیے سنگ بنیاد کی تقریب 5 مئی 2019ء کو سوہاوہ میں ہوئی،اس کے لئے  58 کنال اراضی   وقف کی گئی ہےاور

القادر یونیورسٹی میں  پہلا تعلیمی سال 2021 میں شروع ہوا۔ اب یہاں چار بلاک ہیں

ایڈمن بلاک،صوفی بلاک،سائنس بلاک،ریسرچ بلاک

یہاں دو قسم کی تعلیم فراہم کی جا رہی ہے

BS (Hons) Management 
 BS Islamic Studies

  یہاں کے ڈین ڈاکٹر زیشان احمد ہیں،فی الحال یونیورسٹی میں 77 طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں،یہاں جدید طریقہ پروجیکٹر وغیرہ کے زریعے کلاس روم میں پڑھایا جاتا ہے

یہاں کمپیوٹر لیب،سیمینار حال،لائبریری،کیفے ٹیریا،ہاسٹل،اور یونیورسٹی کے اندر اور باہر کھیلنے کی جگہ کے ساتھ ساتھ مسجد موجود ہے،

یہاں دو قسم کی سکالر شپ فراہم کی جاتی ہے میرٹ کی بنیاد پر اور مالی طور پر کمزوری کی بنیاد پر

.یونورسٹی کی ویب سائٹ کے زریعے آنلائن داخلہ کروایا جا سکتا ہے





https://alqadir.edu.pk/



«روشن لیمپ» Shining lamp

 «روشن لیمپ»

اکثر موٹر سائیکل لے کر گھر سے نکلتا ہوں تو ہر کچھ دیر بعد گلیوں سے گزرتے ہوئے بچے، جوان ، بوڑھے اس طرح کا اشارہ کرتے نظر آتے ہیں۔۔
اگر آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے تو بتا دوں کہ یہ اشارہ جلتے ہوئے لیمپ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔۔
یعنی اگر اپ کی موٹر سائیکل کی فرنٹ لائٹ روشن ہے۔۔
مگر لوگ تو ڈائنا سور کے منہ کہ طرح کا اشارہ کرتے ہیں۔۔
میں نے اس پر آج گوگل میں سرچ کیا تو پھر یہ عقدہ کھلا۔۔
مگر یہ ابھی تک سمجھ نہیں آ رہی کہ ایک عام موٹر سائیکل کی لائٹ کتنی کسی کی آنکھوں میں چبھتی ہو گی۔۔؟؟
یا موٹر سائیکل کی لائٹ اگر آن ہو تو کتنا پیٹرول ضائع ہو جاتا ہے۔۔۔
جو پاکستانی عوام اس طرح کا اشارہ کرنا فرض کے درجے میں سمجھتے ہیں۔۔
اب مجھے یہ ضرور بتانا کہ آپ میں سے کس کس کو اس اشارے کی اصل معلوم تھی۔۔؟؟