اتوار، 10 دسمبر، 2023

«آج کا فراڈ»

 «آج کا فراڈ»

میں اپنے معمول کے مطابق صبح کام پر جا رہا تھا۔۔ا
گیارہ بجے کے قریب۔۔میں ابھی چوہڑ چوک سے آگے جہاں ماڈل بازار ہے وہاں سے گزر رہا تھا۔۔
تو معمول کے مطابق ایکسائز اور پاسنگ اور پرمٹ چیک کرنے والوں نے روکا۔۔اور یہ اکثر روکتے ہیں۔۔
میرے پاس سوزوکی پک اپ پے لوڈنگ والی تو۔۔
اس کے لئے تین چیزیں ضروری ہیں۔۔
ایک روٹ پرمٹ جہاں گاڑی چلانے کی اجازت ہوتی ہے۔۔میرے پاس راولپنڈی کا پرمٹ ہے اس کی مدت تین سال ہوتی ہے۔۔
دوسری چیز گاڑی کا فٹنس سرٹیفکیٹ۔۔یہ ہر چھ ماہ بعد ہوتا ہے۔۔
اور میرے پاس فٹنس سرٹیفکیٹ جنوری دو ہزار چوبیس تک کا ہے۔۔
تیسری چیز ٹوکن ٹیکس ہے یہ ہر سال کا ٹیکس ہوتا ہے جو ہمیں حکومت کو دینا ہوتا ہے۔۔
میرے پاس یہ تینوں چیزہں موجود تھی۔۔۔
مگر ایکسائز اہلکار نے اپنے دفتر کے باہر مجھے روک دیا۔۔
میں نے معمول کے مطابق اپنے تمام کاغذات ان کو پیش کر دیے۔۔
اور کہا اپ روز روکتے ہو۔۔کوئی سٹیکر لگوا دو۔۔تاکہ آپ کا وقت ضائع نہ ہو۔۔
اس نے پرمٹ دوسرے اہلکار کو دیا۔۔میں اس جگہ اکثر سب کچھ چیک کرواتا ہوں۔۔ایک دن پہلے بھی میں نے چیک کروایا تھا۔۔
مگر اس نے کہا باہر آ جاو۔۔میں باہر اتر آیا۔۔
اب وہ اہلکار مجھے کہہ رہا ہے پاسنگ کہاں ہے۔۔میں نے اس کو ایک کاغذ کے طرف اشارہ کر کے کہا یہ ہے۔۔
کہنے لگا "تو ہن سانوں قانون پڑھاسے "
وہ اسلام آباد کا فٹنس سرٹیفکیٹ تھا۔۔وہ کہنے لگا ہمیں پنڈی کا چاہیے پھر پرمٹ کی طرف کہنے لگا کہ یہ ایکسپائر ہے حالانکہ پرمٹ تین سال ک ہوتا ہے اور میں نے خود پرمٹ رینیو کروایا تھا۔۔
میں نے کہا اس پرمٹ پر دو ہزار چوبیس لکھا ہے۔۔
کہنے لگا "تو زیادہ سمجھدار ہیں تیری گڈی بند کرنی پیسی"
کہنے لگا پنڈی کا پرمٹ چاہیے۔۔میں نے کہا یہ سامنے پنڈی ایریا لکھا ہے جہاں میں کھڑا ہوں۔۔کہنے لگا تیری گڈی بند ہو گئی ہے اس کے پاس ایک پرچی تھی۔۔اس نے اس پر میرا نام لکھا اور کہا گاڑی دفتر میں لے جاو اب پیسے جمع کرواو۔۔
میں نے اسے کہا میرے کاغذات میں جو چیز کم ہے وہ بتاو تاکہ میں وہ پورے کر سکو۔۔
وہاں دوسرے اہلکار کو میں نے کاغذ دکھایا تو اس نے کہا تیری چیزیں پوری ہیں۔۔تجھے کیوں روک رہے ہیں۔۔پھر جس بندے نے مجھے روکا تھا وہ زبردستی میرے ساتھ بیٹھ کر مجھے دفتر کے اندر لے گیا۔۔دفتر فٹنس سرٹیفکیٹ کا تھا۔۔یہاں گاڑیوں کی فٹنس چیک کی جاتی تھی۔۔مگر میرا ایک مہینہ رہتا تھا۔۔مگر یہ بضد تھے کہ تمہارے پاس فٹنس سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔۔
میں پھر ٹریفک اہلکار کے پاس گیا کہ میرے کاغذات چیک کریں میری گاڑی بند کی ہے۔۔اس نے کہا تمہارے کاغذات تو ٹھیک ہیں کس نے گاڑی روکی ہے میں نے بتایا تو کہنے لگا کہ اب میں تو کچھ نہیں کر سکتا۔۔انہی سے پوچھو۔۔
وہ بندہ فراڈی بار بار اگے پیچھے پھرتا رہا میں اس سے بار بار پوچھتا رہا کہ میرا حل بتاو اس نے ایک جگہ کا نام لیا صدر میں ویران اڈہ ہے وہاں دفتر میں چالان جمع ہوتا ہے پھر آپ کی گاڑی کھلے گی۔۔
میں نے وہاں پاسنگ کے لئے بھی پیسے جمع کروائے۔۔اور انہوں نے چودہ دن کا وقت دیا کہ چودہ دن کے اندر اندر اپ گاڑی کا فٹنس سرٹیفیکٹ لے سکتے ہیں گاڑی چیک کروا کر۔۔
اب میں دوبارہ اس بندے کے پاس آیا اس کے ماتحت کا نام امتیاز تھا۔۔
اس نے کہا جب تک ویران اڈے والا چالان جمع نہیں ہو گا۔۔گاڑی باہر نہیں نکلے گی۔۔
میں نے پھر بھائی کو بھیجا بائیکیا پر وہ وہاں صدر میں ویران اڈے کی پرانی سی سرکاری عمارت میں گیا وہاں باہر ایجنٹ کھڑے تھے۔۔دفتر کے اندر بندے نے بھائی سے دو ہزار پکڑے نہ کوئی رسید نہ کوئی ثبوت۔۔
اس نے کہا واپس دفتر جاو امتیاز کو کہنا فون کرے تمہاری گاڑی چھوڑ دیں گے بھائی بائیکیا پر ہی واپس آیا۔۔
اور پھر اس نے اس کو فون کیا اور ہماری گاڑی باہر آنے دی۔۔اب میں بازار دو بجے پہنچا۔۔آج میری اچھی سیل کا دن تھا۔۔اس لئے مجھے بازار پہنچنے کی ٹینشن تھی۔۔
اس لئے جلد بازی میں سارا کام ہوا۔۔چھٹی کا دن ہوتا تو وہاں بیٹھ کر تسلی سے سوچتا کہ یہ ویران اڈے میں کس چیز کے پیسے وصولے جا رہے ہیں۔۔
آہستہ آہستہ ملک کے اداروں سے نفرت ہوتی جا رہی ہے کیونکہ کوئی بھی ملک اپنے اداروں کے سہارے کھڑا ہوتا ہے ادارے ہی عوام کا استحصال کریں تو نفرت ادارے سے نہیں ملک سے ہو جاتی ہے۔۔
مجھے کوئی بندہ بتا سکتا ہے مجھ سے کس چیز کے پیسے لیے گئے۔۔حالانکہ میں نے اسلام آباد ٹریفک پولیس والوں سے فون کر کے پوچھا بھی تھا۔۔کہ میرا فٹنس سرٹیفکیٹ راولپنڈی میں قابل قبول ہے یا نہیں انہوں نے کہا تھا۔۔قابل قبول ہے۔۔
تو آج کا دن تو میں نے سرکاری ادارے پر لعنت ہی بھیج ہے۔۔۔
تو فیس بک پر تحریر لکھ دی تاکہ ثبت رہے۔۔۔
اس کے علاوہ میرے پاس کوئی پلیٹ فارم یا سہارا نہیں جہاں سے مجھے معلوم ہو سکے۔۔میرے سے کس چیز کے پیسے لیے گئے جن کا کوئی ثبوت بھی نہیں۔۔۔؟؟
#Rawalpindi
#punjab
#Pakistan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں