*مزدور*
(ایک ایسے بچے کی کہانی جو گھر سے کام کے لئے نکلا تھا۔۔مگر تقدیر نے اس کے ساتھ کیاکھیل کھیلا یہ تو پڑھنے کے بعد ہی پتا چلے گا۔۔ نوجوانوں اور ان کے والدین کے لئے سبق آموز تحریر)
وہ وہاں کھڑا یہی سوچ رہا تھا کہ گھر کس منہ سے جاؤں گا۔۔۔
ہوا کچھ یوں کہ صبح گھر والوں نے اسے زبردستی اٹھایا کہ کچھ کام بھی کرو۔۔
ہر وقت سو سو کر اپنا اور بیڈ دونوں کا ستیاناس کر دیا ہے۔۔۔۔
ابو نے تو آئندہ کے بعد اس کے گھر رہنے پر بھی پابندی لگا دی۔۔
اور خرچہ نہ اٹھانے کا حلف لے لیا۔۔۔
امی بھی اب روز روز ابو کے طعنے سن کر تنگ آ چکی تھی۔۔۔
ابو کے بقول بچے کی عیش پسندی اور سہل پسندی امی کی
ہی وجہ سے تھی۔۔۔ اس وجہ سے امی نے بھی نرمی کو پس پشت ڈال کر سختی سے کام لیا۔۔
وہ صبح اٹھ تو گیا مگر دماغ اس کا ماؤف تھا۔۔
کئی سالوں بعد اس کو جب صبح صبح گھر سے باہر نکلنا پڑا تو اسے عجیب ہی مناظر نظر آ رہے تھے۔۔۔!!
بچے اسکولوں کو جا رہے تھے، مزدور کام کے لئے رواں دواں تھے۔۔سوٹڈ بوڈٹ لوگ آفس جانے کے لئے دوڑتے نظر آئے۔۔
اس کے ابو خود اسکول ٹیچر تھے جو پڑھانے جا چکے تھے۔۔۔
وہ روڈ پر کھڑا لوگوں کو گھورتا چلا جا رہا تھا۔۔
ایک جگہ کافی سارے مزدور بیٹھے تھے۔۔۔
وہ ان کے پاس گزرتے ہوئے تھوڑی دیر ٹھہرا ہی تھا کہ کئی مزدور اس کی طرف دوڑتے چلے آئے۔۔
پہلے تو وہ حیران ہوا مگر جب اس کے قریب آ کر انہوں نے پوچھا کہ جی صاحب کیا کام کروانا ہے۔۔؟؟ ہم حاضر ہیں۔۔
تو اس نے ہنستے ہوئے کہا:- میں تو خود گھر سے کام ڈھونڈنے نکلا ہوں۔۔
مزدوروں نے اسے حیران ہو کر دیکھا اور پھر اس کا مزاق اڑانے لگے۔۔
تم دو اینٹیں اکھٹی اٹھا نہیں سکتے۔۔مزدوری کیسے کرو گے۔۔؟؟۔
اس نے ان کی باتوں کو ان سنا کرتے ہوئے وہی پر ایک کونا پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔
پورا دن بے شمار لوگ آتے رہے اور اپنی پسند کے مزدوروں کو لے کر جاتے رہے۔۔
کوئی بھی اسے ساتھ لے کر جانے پر راضی نہیں تھا۔۔
کیونکہ اس کی شکل دیکھ کر پتا چل جاتا تھا کہ وہ سخت کام نہیں کر سکتا۔۔
دن کو ایک سخی بندہ چاولوں کے شاپر لے آیا اور ہر مزدور کو دے کر چلا گیا۔۔
ایک شاپر اس کو بھی دیا جو اس نے فورا لے لیا کیونکہ صبح اس کو گھر سے نکلتے ہوئے کسی نے بھی ناشتے کا نہیں پوچھا تھا۔۔
اور وہ خالی پیٹ ہی گھر سے نکل آیا تھا۔۔
اب وہ چاولوں کو ندیدوں کی طرح کھانے لگا۔۔۔
ایک اور مزدور جو صبح سے اس کی حرکات کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
اس نے اپنے چاولوں کا شاپر ابھی تک نہیں کھولا تھا۔۔اس نے اس کے چاول ختم ہوتے دیکھ کر اپنا شاپر اس کی طرف بڑھایا۔۔
بھوک زیادہ ہونے کی وجہ سے اس نے بغیر انکار کیے وہ لے لیا اور جلد ہی اس نے وہ کھا کر ختم کر دیے۔۔۔۔
اب اس کی بھوک کچھ قابو ہو چکی تھی۔۔۔۔
اب وہ مزدور جس نے اس کو اپنا شاپر دیا تھا۔۔
اس کے قریب ہو کر بیٹھ گیا۔۔
پھر اس سے آہستہ سے پوچھنے لگا۔۔"کیا نام ہے تمہارا۔۔؟؟"
٫میرا نام احمد ہے۔۔۔"اس نے کہا..
یہاں کیا کرنے آئے ہو۔۔؟؟ مزدور نے پوچھا۔
میں تو گھر سے پیسے کمانے نکلا تھا۔۔بس یہ جگہ مزدورں کی نظر ائی تو یہی بیٹھ گیا۔۔
رہتے کہاں ہو۔۔؟؟
بازار کے قریب ہی۔۔۔!! اس نے کہا۔
اب مزدور نے اس سے پوچھتے ہوئے کہا:-
"شکل سے تو پڑھے لکھے لگتے ہو پھر کوئی اچھا سا کام کیوں نہیں کر لیتے۔۔!!
میں نوکری کی تلاش میں ہوں مگر مجھے ابھی تک نوکری نہیں ملی۔۔تو آج امی ابو نے غصے سے گھر سے نکال دیا۔۔
۔۔
اچھا تو تم ابھی تک زمانے سے ناواقف ہو۔ میرے پاس کچھ کام ہیں جن کے لئے مجھے بندے چاہیے۔مزدور نے کہا۔۔
۔۔
واہ صبح سے یہاں تم بیٹھے مکیھاں مار رہے ہو اور تم کہہ رہے ہو تمہیں کام کے لئے بندے چاہیے۔۔۔۔
۔۔
اگر تمہارے پاس کام ہوتا تو تم کام پر ہوتے یہاں نہ بیٹھے ہوتے۔۔۔احمد نے ہنستے ہوئے اس کا مزاق اڑایا۔۔
۔۔
مگر مزدور نے صرف مسکرا کر مشکوک مسکراہٹ سے کہا۔۔
تمہیں کیا لگتا ہے میں یہاں کام ڈھونے آیا ہوں۔۔
نہیں میں یہاں بندے ڈھونڈنے آیا ہوں۔۔سمجھدار اور خوش شکل بندے۔۔۔ جو مزدوری تو کرنا چاہتے ہو۔۔مگر شکل سے مزدور نہ لگتے ہو۔۔۔۔!!
اب احمد بھی اس کی طرف متوجہ ہوا اس مزدور نے پرانے کپڑے تو پہنے تھے۔۔مگر اس کا انداز اس کے پرانے کپڑوں کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتا تھا۔۔
اس کے بال طریقے سے پیچھے کی طرف مڑے ہوئے تھے جو کہ شانوں تک لٹک رہے تھے سر پر ایک دھوپ سے بچنے والی رنگین سی کیپ پہن رکھی تھی جس کے چھجے کا رخ پیچھے کی طرف تھا۔۔۔۔
آنکھوں کی پتلیاں براؤن تھی۔۔اور چہرہ کی رنگت سفید تھی۔۔اس نے اگر پرانے کپڑے نہ پہنے ہوتے تو وہ کسی بھی طرف سے مزدور نہ لگتا۔۔
تو تمہارے پاس ایسا کیا کام ہے جس کے لئے تمہیں بندے چاہیے اور وہ بھی خوش شکل۔۔۔۔!!احمد نے پوچھا.
بتاؤں گا مگر پہلے تم اپنی تعلیم بتاو۔۔مزدور نے اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی کہا۔۔
میں مکینیکل انجینئر ہوں۔۔اور ایک سال ہو گیا ہے ابھی تک نوکری نہیں مل رہی۔۔احمد نے اپنی تعلیم بتائی۔۔
ٹھیک ہے۔۔میرے ساتھ آو۔۔۔یہ کہہ کر وہ مزدور فورا اٹھ کر ایک سمت چل دیا۔۔
اور احمد بھی اس کے پیچھے روانہ ہو گیا۔۔
یہ راجہ بازار کا ایک علاقہ تھا۔۔
وہ یہاں سے دس منٹ پیدل چلنے کے بعد ایک تھانے کے پاس پہنچا اور اس کو ایک پرچی دی کہ روڈ کے دوسری طرف تھانے کے باہر جو سفید رنگ کے کپڑے پہنا شخص کھڑا ہے اس کو دے دو۔۔۔
احمد کو تفشیش ہوئی کہ یہ کیسی مزدوری ہے جو پرچی پکڑانے سے شروع ہوتی ہے۔۔اس نے اس کو غصے سے کہا کیا یہ ہے وہ کام جس کے لئے تمہیں بندے چاہیے۔۔۔
تم تو مزدور کم اور کوئی فراڈ زیادہ لگ رہے ہو۔۔
وہ بندہ بغیرے چہرے کے تاثرات بدلائے کھڑا رہا اور اس نے ہزار کا ایک نوٹ احمد کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ اس پرچی کو وہاں تک پہنچانے کی مزدوری ہے۔۔
احمد تھوڑی دیر کے لئے ہچکچایا مگر جب اس کو گھر والوں کا صبح کا رویہ یاد آیا تو اس کی اپنی سوچ کے مطابق یہ کام کرنے کا ارادہ کر لیا اس نے نوٹ پکڑ کر جیب میں ڈالا۔۔
اور سفید کپڑوں والے کی طرف پرچی لے کر چل پڑا۔۔
احمد کی عمر محض اکیس سال تھی۔۔
اور دیکھنے میں معصوم بچہ لگتا تھا۔۔جسم مضبوط تھا اور بے ریش تھا۔۔مونچھیں ہلکی ہلکی نکل رہی تھی۔۔۔
رنگت سفید تھی، انکھوں کی پتلیاں مکمل سیاہ۔۔
احمد جب اس سفید کپڑے والے بندے کے پاس پہنچا تو وہ کسی سے فون پر بات کر رہا تھا۔۔
وہ گھنی داڑھی ، مونچھوں والا کالی سی رنگت والا پتلا سا شخص تھا۔۔۔
احمد اس کے سامنے کھڑا ہوا اور پرچی اس کی طرف بڑھائی اس نے احمد کو غور سے دیکھا اور اردگرد دیکھ کر احمد سے پرچی لے لی۔۔۔
احمد اس کو پرچی دے کر روڈ کراس کر کے اسی جگہ آیا جہاں سے مزدور نے اس کو بھیجا تھا۔۔
اب وہاں وہ مزدور نہیں تھا۔۔
اور جب اس نے مڑ کر تھانے کی طرف نظر دوڑائی تو وہ سفید کپڑوں والا بھی وہاں نظر نہیں آ رہا تھا۔۔۔
اب تھوڑی دیر وہ وہی کھڑا ارد گرد دیکھتا رہا۔۔
اکتوبر کا مہینہ تھا اب دن کے دو بج چکے تھے۔۔
اس کے جیب میں ایک ہزار کا نوٹ تھا۔۔اب اس کو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔گھر جا کر کیا بتائے گا کہ اس نے یہ پیسے کیا کام کر کے حاصل کیے۔۔۔
(باقی ان شاءاللہ جلد ہی)
متین احمد
بےنام لکھاری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں