پیر، 30 جنوری، 2023

مزدور ناول

 *مزدور*


(ایک ایسے بچے کی کہانی جو گھر سے کام کے لئے نکلا تھا۔۔مگر تقدیر نے اس کے ساتھ کیاکھیل کھیلا یہ تو پڑھنے کے بعد ہی پتا چلے گا۔۔ نوجوانوں اور ان کے والدین کے لئے سبق آموز تحریر)


وہ وہاں کھڑا  یہی سوچ رہا تھا کہ گھر کس منہ سے جاؤں گا۔۔۔


ہوا کچھ یوں کہ صبح گھر والوں نے اسے زبردستی اٹھایا کہ کچھ کام بھی کرو۔۔

ہر وقت سو سو کر اپنا اور بیڈ دونوں کا ستیاناس کر دیا ہے۔۔۔۔

ابو نے تو آئندہ کے بعد اس کے گھر رہنے پر بھی پابندی لگا دی۔۔

اور خرچہ نہ اٹھانے کا حلف لے لیا۔۔۔

امی بھی اب روز روز ابو کے طعنے سن کر تنگ آ چکی تھی۔۔۔

ابو کے بقول بچے کی عیش پسندی اور سہل پسندی امی کی 

ہی وجہ سے تھی۔۔۔ اس وجہ سے امی نے بھی نرمی کو پس پشت ڈال کر سختی سے کام لیا۔۔

وہ صبح اٹھ تو گیا مگر دماغ اس کا ماؤف تھا۔۔

کئی سالوں بعد اس کو جب صبح صبح گھر سے باہر نکلنا پڑا تو اسے  عجیب ہی مناظر نظر آ رہے تھے۔۔۔!!

بچے اسکولوں کو جا رہے تھے، مزدور کام کے لئے رواں دواں تھے۔۔سوٹڈ بوڈٹ لوگ آفس جانے کے لئے دوڑتے نظر آئے۔۔

اس کے ابو خود اسکول ٹیچر تھے جو پڑھانے جا چکے تھے۔۔۔


وہ روڈ پر کھڑا لوگوں کو گھورتا چلا جا رہا تھا۔۔


ایک جگہ کافی سارے مزدور بیٹھے تھے۔۔۔

وہ ان کے پاس گزرتے ہوئے تھوڑی دیر ٹھہرا ہی تھا کہ کئی مزدور اس کی طرف دوڑتے چلے آئے۔۔

پہلے تو وہ حیران ہوا مگر جب اس کے قریب آ کر انہوں نے پوچھا کہ جی صاحب کیا کام کروانا ہے۔۔؟؟ ہم حاضر ہیں۔۔


تو اس نے ہنستے ہوئے کہا:- میں تو خود گھر سے کام ڈھونڈنے نکلا ہوں۔۔


مزدوروں نے اسے حیران ہو کر دیکھا اور پھر اس کا مزاق اڑانے لگے۔۔


تم دو اینٹیں اکھٹی اٹھا نہیں سکتے۔۔مزدوری کیسے کرو گے۔۔؟؟۔


اس نے ان کی باتوں کو ان سنا کرتے ہوئے  وہی پر ایک کونا پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔


پورا دن  بے شمار لوگ آتے رہے اور اپنی پسند کے مزدوروں کو لے کر جاتے رہے۔۔

کوئی بھی اسے ساتھ لے کر جانے پر راضی نہیں تھا۔۔

کیونکہ اس کی شکل دیکھ کر پتا چل جاتا تھا کہ وہ سخت کام نہیں کر سکتا۔۔


دن کو ایک سخی بندہ چاولوں کے شاپر لے آیا اور ہر مزدور کو دے کر چلا گیا۔۔


ایک شاپر اس کو بھی دیا جو اس نے فورا لے لیا کیونکہ صبح اس کو گھر سے نکلتے ہوئے کسی نے بھی ناشتے کا نہیں پوچھا تھا۔۔


اور وہ خالی پیٹ ہی گھر سے نکل آیا تھا۔۔ 

اب وہ چاولوں کو ندیدوں کی طرح کھانے لگا۔۔۔


ایک اور مزدور جو صبح سے اس کی حرکات کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

اس نے اپنے چاولوں کا شاپر ابھی تک نہیں کھولا تھا۔۔اس نے اس کے چاول ختم ہوتے دیکھ کر اپنا شاپر اس کی طرف بڑھایا۔۔

بھوک زیادہ ہونے کی وجہ سے اس نے بغیر انکار کیے وہ لے لیا اور جلد ہی اس نے وہ کھا کر ختم کر دیے۔۔۔۔

اب اس کی بھوک کچھ قابو ہو  چکی تھی۔۔۔۔

 اب وہ مزدور جس نے اس کو اپنا شاپر دیا تھا۔۔

اس کے قریب ہو کر بیٹھ گیا۔۔

پھر اس سے آہستہ سے پوچھنے لگا۔۔"کیا نام ہے تمہارا۔۔؟؟"


٫میرا نام احمد ہے۔۔۔"اس نے کہا..


یہاں کیا کرنے آئے ہو۔۔؟؟ مزدور نے پوچھا۔


میں تو گھر سے پیسے کمانے نکلا تھا۔۔بس یہ جگہ مزدورں کی نظر ائی تو یہی بیٹھ گیا۔۔


رہتے کہاں ہو۔۔؟؟ 


بازار کے قریب ہی۔۔۔!! اس نے کہا۔


اب مزدور نے اس سے  پوچھتے ہوئے کہا:-

"شکل سے تو پڑھے لکھے لگتے ہو پھر کوئی اچھا سا کام کیوں نہیں کر لیتے۔۔!!


میں نوکری کی تلاش میں ہوں مگر مجھے ابھی تک نوکری نہیں ملی۔۔تو آج امی ابو نے  غصے سے گھر سے نکال دیا۔۔

۔۔


اچھا تو تم ابھی تک زمانے سے ناواقف ہو۔ میرے پاس کچھ کام ہیں جن کے لئے مجھے بندے چاہیے۔مزدور نے کہا۔۔


۔۔

واہ صبح سے یہاں تم بیٹھے مکیھاں مار رہے ہو اور تم کہہ رہے ہو تمہیں کام کے لئے بندے چاہیے۔۔۔۔

۔۔

اگر تمہارے پاس کام ہوتا تو تم کام پر ہوتے یہاں نہ بیٹھے ہوتے۔۔۔احمد نے ہنستے ہوئے اس کا مزاق اڑایا۔۔

۔۔

مگر مزدور نے صرف مسکرا کر مشکوک مسکراہٹ سے کہا۔۔

تمہیں کیا لگتا ہے میں یہاں کام ڈھونے آیا ہوں۔۔

نہیں میں یہاں بندے ڈھونڈنے آیا ہوں۔۔سمجھدار اور خوش شکل بندے۔۔۔ جو مزدوری تو کرنا چاہتے ہو۔۔مگر شکل سے مزدور نہ لگتے ہو۔۔۔۔!!


 اب احمد بھی اس کی طرف متوجہ ہوا اس مزدور نے پرانے کپڑے تو پہنے تھے۔۔مگر اس کا انداز اس کے پرانے کپڑوں کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتا تھا۔۔

اس کے بال طریقے سے پیچھے کی طرف مڑے ہوئے تھے جو کہ شانوں تک لٹک رہے تھے سر پر ایک دھوپ سے بچنے والی رنگین سی کیپ پہن رکھی تھی جس کے چھجے کا رخ پیچھے کی طرف تھا۔۔۔۔

آنکھوں کی پتلیاں  براؤن تھی۔۔اور چہرہ کی رنگت سفید تھی۔۔اس نے اگر پرانے کپڑے نہ پہنے ہوتے تو وہ کسی بھی طرف سے مزدور نہ لگتا۔۔

 تو تمہارے پاس ایسا کیا کام ہے جس کے لئے تمہیں بندے چاہیے اور وہ بھی خوش شکل۔۔۔۔!!احمد نے پوچھا.


بتاؤں گا مگر پہلے تم اپنی تعلیم بتاو۔۔مزدور نے اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی کہا۔۔


میں مکینیکل انجینئر ہوں۔۔اور ایک سال ہو گیا ہے ابھی تک نوکری نہیں مل رہی۔۔احمد نے اپنی تعلیم بتائی۔۔


ٹھیک ہے۔۔میرے ساتھ آو۔۔۔یہ کہہ کر  وہ مزدور فورا اٹھ کر ایک سمت چل دیا۔۔

اور احمد بھی اس کے پیچھے روانہ ہو گیا۔۔

یہ راجہ بازار کا ایک علاقہ تھا۔۔

وہ یہاں سے دس منٹ پیدل چلنے کے بعد ایک تھانے کے پاس پہنچا اور اس کو ایک پرچی دی کہ روڈ کے دوسری طرف تھانے کے باہر جو سفید رنگ کے کپڑے پہنا شخص کھڑا ہے اس کو دے دو۔۔۔


احمد کو تفشیش ہوئی کہ یہ کیسی مزدوری ہے جو پرچی پکڑانے سے شروع ہوتی ہے۔۔اس نے اس کو غصے سے کہا کیا یہ ہے وہ کام جس کے لئے تمہیں بندے چاہیے۔۔۔

تم تو مزدور کم اور کوئی فراڈ زیادہ لگ رہے ہو۔۔


وہ بندہ بغیرے چہرے کے تاثرات بدلائے کھڑا رہا اور اس نے ہزار کا ایک نوٹ احمد کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ اس پرچی کو وہاں تک پہنچانے کی مزدوری ہے۔۔

احمد تھوڑی دیر کے لئے ہچکچایا مگر جب اس کو گھر والوں کا صبح کا رویہ یاد آیا تو اس کی اپنی سوچ کے مطابق  یہ کام کرنے کا ارادہ کر لیا اس نے نوٹ پکڑ کر جیب میں ڈالا۔۔

اور سفید کپڑوں والے کی طرف پرچی لے کر چل پڑا۔۔

احمد کی عمر محض اکیس سال تھی۔۔ 

اور دیکھنے میں معصوم بچہ لگتا تھا۔۔جسم مضبوط تھا اور بے ریش تھا۔۔مونچھیں ہلکی ہلکی نکل رہی تھی۔۔۔

رنگت سفید تھی، انکھوں کی پتلیاں مکمل سیاہ۔۔

احمد جب اس سفید کپڑے والے بندے کے پاس پہنچا تو وہ کسی سے فون پر بات کر رہا تھا۔۔

وہ گھنی داڑھی ، مونچھوں والا  کالی سی رنگت والا پتلا سا شخص تھا۔۔۔

احمد اس کے سامنے کھڑا ہوا اور پرچی اس کی طرف بڑھائی اس نے احمد کو غور سے دیکھا اور اردگرد دیکھ کر احمد سے پرچی لے لی۔۔۔

احمد اس کو پرچی دے کر روڈ کراس کر کے اسی جگہ آیا جہاں سے مزدور نے اس کو بھیجا تھا۔۔

اب وہاں وہ مزدور نہیں تھا۔۔

اور جب اس نے مڑ کر تھانے کی طرف نظر دوڑائی  تو وہ سفید کپڑوں والا بھی وہاں نظر نہیں آ رہا تھا۔۔۔

اب تھوڑی دیر وہ وہی کھڑا ارد گرد دیکھتا رہا۔۔

اکتوبر کا مہینہ تھا اب دن کے دو بج چکے تھے۔۔

اس کے جیب میں ایک ہزار کا نوٹ تھا۔۔اب اس کو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔گھر جا کر کیا بتائے گا کہ اس نے یہ پیسے کیا کام کر کے حاصل کیے۔۔۔

(باقی ان شاءاللہ جلد ہی)

متین احمد

 بےنام لکھاری

ہتھکڑی-قیدی-The Companion of Love

 ہر قید اذیت کے لئے نہیں ہوتی

بعض قیدیں محبت کے لئے ہوتی ہیں..کسی ایسے کی طرف سے جو آپ کو خود سے دور نہ کرنا چاہتا ہو...

آپ کو کھونا نہ چاہتا ہو...
جیسا کہ اللہ نے ہم پر قیود لگائی ہیں تو وہ ہم سے محبت کی وجہ سے ہیں...
اگر ہمیں گناہ کا موقعہ نہیں ملتا..تو اللہ ہمیں دنیا کی رنگینوں میں کھونے سے بچانا چاہتے ہیں..
ورنہ شیطان کو جس طرح دھتکار دیا..
فـاخـرج مـنـھـا فـانـک رجـیـم
(نکل جا یہاں سے پس تو مردود ہے)
اللہ ہمیں بھی ایسے دھتکار دے تو اسے فرق نہیں پڑے گا..
مگر اللہ کہتے ہیں
میری رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو..
یہ اللہ کی ہم سے محبت ہے...
اس لئے اللہ کی قیدوں کو اذیت کی بجائے محبت سمجھیں..
بےنام لکھاری

اتوار، 29 جنوری، 2023

بازار-market

 بازار میں ہونا اور بازار کا دل میں ہونا۔۔۔

ذکر الہی دونوں میں تفریق کرتا ہے۔۔۔
لا اله الا اللہ وحدہ لا شریک له، له الملک وله الحمد، یحیی ویمیت

مزدور-labour

 صبح ایک تگڑے بابا جی کا گزر ہوا۔۔

میں گاڑی سے سامان اتار کر سٹال پر رکھ رہا تھا۔۔

گاڑی سٹال سے دس قدم کے فاصلے پر کھڑی کی تھی۔۔
قریب نہیں آ سکتی تھی۔۔
بابا جی نے قریب آ کر اونچی آواز میں فرمایا:-
"تم رجسٹر مہنگا دیتے ہو۔۔
سو روپے کا رجسٹر غریب بندہ نہیں لے سکتا۔۔تم چیزیں مہنگی دیتے ہو غریب بندہ کہاں جائے۔۔'
میں نے کہا:-
"غریب بندے کو چاہیے۔۔مزدوری کرے۔۔یہ گاڑی میں کچھ سامان رہ گیا ہے یہ اتار کر سٹال پر رکھ دو۔۔
ڈیڑھ سو روپے دوں گا۔۔
۔۔
پھر بابے نے کہا :-" نہیں دو سو دو گے تو کام کروں گا۔۔۔۔"
حالانکہ کام ڈیڑھ سو کا بھی نہیں تھا۔۔وہ میں نے ازراہ ہمدردی کہا تھا کہ اگر دو تین چیزیں رکھ دے تو پیسے دے دوں گا۔۔
مگر بابے نے غربت کا رونا روتے ہوئے فورا دوڑ لگا دی۔۔
تو خلاصہ کلام یہ ہے کہ کیا آپ بھی غریب ہیں۔۔؟؟
اور غربت کو قسمت کا حصہ سمجھ کر بیٹھ گئے ہیں۔۔کہ دنیا کی نعمتیں تو اللہ نے صرف امیروں کے لئے بنائی ہیں تو آپ یقینا نکمے ، سست ، کاہل اور کمزور ایمان والے ہیں۔۔
کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ محنت کرنے کا حکم دیا ہے۔۔کوئی بھی صحابی غریب نہیں تھا۔۔
سب صحابہ کوئی نہ کوئی کام ضرور کرتے تھے۔۔
ایسا کوئی صحابی رسول تاریخ میں نہیں ملتا جس نے محنت سے جی چرایا ہو۔۔۔۔
اب رہے وہ واقعات جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام صحابہ کے پاس کبھی کبھار کھانے کے لئے کچھ نہ ہوتا تھا۔۔تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے زہنوں میں اللہ کے پیغام کو پھیلانا ہوتا تھا۔۔اور یہی وجہ ان کو معاش کی فکر سے بے پرواہ رکھتی تھی۔۔۔
اور ہماری غربت کی وجہ نہ تو کوئی بڑا مقصد ہے۔۔اور نہ ہی کوئی اور کام۔۔
ہم صرف سست, نکمے اور دماغی کام سے جی چرانے والے لوگ ہیں۔۔
یہی وجہ ہمیں پوری دنیا میں۔۔رسوا کیے ہوئے ہے۔۔!!
#احمد (متین احمد)

نیکی-goodness

کل ایک عورت نے دو تین چیزیں خریدی
440 روپے بل بنا۔۔
پانچ سو کا نوٹ دیا اور انہوں نے کہا چار سو کاٹ لو۔۔میں نے کہا :- ہم اپنا نفع بہت کم رکھتے ہیں۔۔
اس لئے قیمت فکس ہے۔۔۔۔
لیکن انہوں نے بہت ضد کی اور مجھے ان کو سو کا نوٹ واپس کرنا ہی پڑا۔۔
اب جیسے ہی سو کا نوٹ واپس کیا۔۔
اسی دوران پیچھے سے پیشہ ور مانگنے والی پارٹی کی ایک رکن گزر رہی تھی۔۔
(جن کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ہاتھ ریڑھی میں کسی بچے/بچی کو بٹھایا ہوتا ہے۔۔
اور ریڑھی کھینچنے والی خود بہت بری حالت میں ہوتی ہیں۔۔
اور ایک سپیکر کے زریعے فریادی کلمات چلائے جاتے ہیں۔۔)
اس عورت نے مجھے سے چالیس روپے کی ضد کرنے کے بعد وہ سو کا نوٹ اس عورت کی ریڑھی میں ڈال دیا۔۔
۔۔
اب مجھے غصہ بھی آیا۔۔میں نے اس عورت کو کہا :-جس کو تم نے پیسے دیے یہ لکھ پتی عورت ہے۔۔۔
ان کے پورے گروپ ہیں۔۔میں زاتی طور پر ان کو پندرہ بیس سالوں سے دیکھ رہا ہوں۔۔
۔۔
میں جو یہاں حلال کمانے کے لئے بیٹھا ہو تم مجھے پورے پیسے دیتے ہوئے ضد کر رہی ہو۔۔اور اس عورت کو سو کا نوٹ بلاوجہ اٹھا کر دے دیا۔۔
کل میں نے بھی مدرسہ کی رسیدیں اٹھا کر مانگنا شروع کر دینا ہے۔۔پھر تم بھی خوشی خوشی پیسے نچھاور کرو گی۔۔۔
۔۔
پھر وہ عورت ائیں بائیں شائیں کرتے ہوئے۔۔چلی گئی۔۔۔۔
۔۔
میں الحمدللہ صبح ایک چھوٹے سے تعلیمی ادارے میں پڑھاتا ہوں۔۔جہاں زیادہ تر بچے برائے نام فیس دیتے ہیں۔۔
اور ہم آٹھ دس استاد ادارے کے نام پر کہیں سے بھی پیسے اکھٹے نہیں کرتے۔۔۔
پھر اس کے بعد ہر استاد اپنا اپنا کام یا کاروبار یا پڑھانے میں وقت گزارتا ہے۔۔
میں پڑھانے کے بعد ہفتہ وار بازاروں میں متفرق اشیاء بیچتا ہوں۔۔۔۔۔
کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ مہنگی گاڑیوں سے اتر کر آنے والی عورتیں بھی صرف دس بیس روپے کے لئے بحث کرتی ہیں۔۔
مگر یہی عورتیں جعلی فقیروں ،برا حلیہ بنا کر مانگنے والوں کو پانچ سو اور ہزار کے نوٹ آرام سے پکڑا دیتی ہیں۔۔۔۔
تو ہماری قوم کو لوٹنے والے بھی اسی حساب سے زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔۔
ہمیں اپنی عادات بدلانی ہوں گی۔۔
ورنہ ہم آئندہ سو سال بعد بھی یتیم خانے، پناہ گاہیں ،سبیلیں ، لنگر خانے اور ہمیشہ سے چندوں پر چلنے والے ادارے ہی بنا رہے ہوں گے۔۔۔
اور دنیا ہمیں اپنی غلامی میں باندھ چکی ہو گی۔۔
ویسے بھی ہمارے وزراء پہلے قرضہ لے کر ملک چلاتے تھے اور اب امداد مانگ مانگ کر ملک کی معیشت سنبھالی ہے۔۔۔
کمانا سیکھیں اور پھر لگانا بھی سیکھیں۔۔
تاکہ کمائی دوبارہ کما کر دے۔۔۔
اور یہی کامیابی کا طریقہ ہے۔۔