اتوار، 15 دسمبر، 2024
بدھ، 4 دسمبر، 2024
file hide hidden file
بچپن میں ایک رسالہ پھول یا تعلیم و تربیت آتا تھا۔۔اس میں ایک صفحہ کمپیوٹر سکھانے کا بھی ہوتا تھا۔۔۔
ایک مرتبہ اس میں فائل کو ہائیڈ(چھپانے) کا طریقہ بتایا گیا تھا۔۔
میں نے فورا اس طریقہ پر عمل کر کے اپنی ساری چیزیں ہائیڈ کر دی۔۔۔
اور جب وہ ہائیڈ ہو گیا تو اب اس رسالے میں لکھا تھا کہ ان شاءاللہ اگلے مہینے ہم فائل کو واپس شو کرنے (ظاہر ) کا طریقہ سکھائیں گے۔۔۔۔
اور یہ پہلا دکھ تھا جو بچپن میں ملا تھا۔۔۔ویسے ہی بیٹھے بیٹھے آج یہ واقعہ یاد آ گیا۔۔
آپ کے بچپن کا کوئی ایسا واقعہ۔۔؟؟
متین احمد مغل
#بےنام_لکھاری
#احمد
#hidden file
#file_hide
#hidden_file
#hiddenfolder
بدھ، 11 ستمبر، 2024
لالچ بری بلا ہے
ایک قصہ پڑھا تھا۔۔۔کسی علاقے میں وہاں کے وڈیرے نے لکھ کر لگایا ہوا تھا کہ اتنے پیسے دو اور صبح طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک جتنا علاقہ پیدل چل لیا تو وہ اس کا پیدل طے شدہ علاقہ اسی کے نام کر دیا جائے گا۔۔۔صرف ایک شرط کے ساتھ کہ واپسی اسی جگہ پہنچنا ہے جہاں سے چلنا شروع کیا تھا اور پانی نہیں پینا۔۔۔۔۔۔۔۔
تو ایک مسافر اس علاقے سے گزرتا ہے اور وڈیرے کا اشتہار دیکھتا ہے تو حیران ہوتا ہے کیا بہترین علاقہ تھا۔۔۔ جگہ جگہ بے شمار قسم کے درخت پانی کی ایک نہر۔۔۔جانوروں کے لئے بہترین چراگاہیں۔۔سر سبز وادی تو اس نے یہ سودا کرنے کی سوچی اور وڈیرے سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔۔۔وڈیرے سے ملاقات ہوئی اور آنے کا مقصد بتایا
تو وڈیرے نے اس کی خوب آؤ بھگت کی۔۔مرغن غذائیں پکوائیں۔۔ بکرا زبح کیا۔۔تندوری روٹیاں کھلائی۔۔۔اور پھر رات کو قصے کہانیوں کا دور چلا آخر رات گئے سونے کی تیار کی گئی۔۔۔وہ بندہ وڈیرے کے اخلاق سے بہت متاثر ہوا۔۔۔
وڈیرے نے رات کو ہی مقرر کردہ پیسے اس سے وصول کر لیے اور جب صبح ہوئی تو اس بندے سے اٹھا ہی نہیں جا رہا تھا۔۔رات کی بھاری غزاؤں سے اس کا جسم بھاری ہو چکا تھا۔۔
بہر حال بڑی مشکل سے وہ اٹھا اور مقرر جگہ پر پہنچا سورج طلوع ہوئے کافی دیر ہو چکی تھی۔۔اب سورج سر پر تھا۔۔مگر وڈیرے نے ہنستے ہوئے کہا:کوئی بات نہیں۔۔ہم مہمان کو اپنے سر کا تاج سمجھتے ہیں۔۔
آپ بس اب مزید دیر مت کریں۔۔چلنا شروع کریں۔۔پانی کی اجازت نہیں ہے۔۔شام کو یہی پر واپس پہنچنا ہے ۔۔اور پھر اس علاقے کے آپ ہی مالک ہیں۔۔
اس نے سفر شروع کیا۔۔وڈیرے کے دو بندے سواری پر اس کے ساتھ ہو لیے۔۔یہ اب پیدل چلنا شروع ہوا۔۔۔
طویل میدان کے سامنے بہترین باغ نظر آ رہے تھے۔۔ اس نے سوچا یہاں سے باغات تک چلتا ہوں۔۔تاکہ تیار شدہ باغات مل جائیں۔۔پھل ملیں گے تو تجارت بھی ہو گی۔۔اور گھر میں بچے بھی خوش رہیں گے۔۔
جب باغ کی طرف چلنا شروع کیا تو دھوپ کی شدت میں تیزی آ رہی تھی۔۔۔جسم رات کی خوراک سے بھاری تھا۔۔مگر اس وقت ایک سستا سودا تھا جسے اس نے منافع میں بدلنا تھا۔۔باغ تک پہنچتے پہنچتے اس کا کافی برا حال ہو چکا تھا۔۔مگر اس نے ہمت نہ ہاری باغ میں پہنچ کر اس نے کچھ سکھ کا سانس لیا
اور ایک درخت کے سائے میں بیٹھ کر تصور میں خود کو اس جگہ کا مالک سمجھنے لگا۔۔ابھی کچھ سانس لیا ہی تھا۔۔
کہ اس کے بندے نے کہا :- حضور یہ باغ تو کچھ نہیں سامنے وادی میں اتر کر جو نہر کنارے درخت ہیں۔۔ان کی لکڑی تو دنیا کی نایاب لکڑیوں میں سے ایک ہے۔۔اس باغ کا پھل تو ختم ہو جائے گا۔۔مگر وہ لکڑی ایسی پائیدار ہے کہ بادشاہ منہ مانگی قیمت پر خریدنے کو تیار بیٹھے ہیں۔۔
اس نے کہا:- اچھا
اور اس نے دوبارہ سے چلنا شروع کیا باغ کیا تھا۔۔۔۔جنت کا ایک حصہ تھا۔۔۔
مگر اس کی نظر اب قیمتی لکڑیوں کے درختوں کی طرف تھی۔۔تو اس نے چلنا شروع کیا۔۔۔اب اترائی کا سفر تھا۔۔یہاں پاؤں پھسلتے تھے۔۔مگر اترائی میں انسان پھسلتا چلا جائے تو پاتال بھی چلا جائے تو مشقت نہیں ہوتی یہ تو صرف نہر کنارے تک پہنچنا تھا۔۔۔
وہاں درختوں کی چند لکڑیاں گری نظر آئی تو اس نے چھیل کر جب ان کی خوشبو سونگھی تو نفس ہی تازہ ہو گیا۔۔ ۔۔
ایسی اعلی قسم کی لکڑی شاید ہی دنیا کے کسی کنارے میں پائی جائے یہاں یہ ان درختوں کو گننا چاہ رہا تھا۔۔مگر سینکڑوں درختوں کو کون شمار کر سکتا ہے۔۔۔۔
نہر میں پہنچ کر اس نے پاؤں وہاں لٹکائے اور پانی سے لطف اٹھانے لگا۔۔
تو وڈیرے کے آدمی نے بولا حضور لکڑی کاٹ لو گے تو بیچنے کے لئے سواریاں بھی تو رکھنی ہیں۔۔اور سواریاں رکھو گے تو چارہ کہاں سے لاؤں گے۔۔اس پہاڑ کے دوسری طرف ایسے بڑی بڑی چراگاہیں ہیں کہ پورے علاقے کے جانور سالہا سال سے یہاں چر رہے مگر نہ ہمارے مالک نے ان کو روکا نہ یہاں چارہ ختم ہوا۔۔
۔ایک دن کی محنت ہے وہ ساری چراگاہیں آپ کے نصیب میں بھی آ سکتی ہیں۔۔بس ہمت رکھیں اور چلنا شروع کریں۔۔
اس مسافر کے دل میں لالچ جاگا کہ کہ ایک دن کی محنت ہے پھر زندگی ساری کا ارام ہے۔۔اپںے لئے اور آئندہ نسلوں کے لئے۔۔ہمت تو کرنی ہی پڑے گی۔۔اب جب اس نے پہاڑ چڑھنا شروع کیا تو اس کا ایک ایک قدم کئی کئی من کا ہو گیا۔۔سانس پھولنا شروع ہو گئی۔۔دل متلی کی طرف مائل ہو گیا۔۔
پیاس نے شدت پکڑ لی۔۔۔
تو ایک بندے نے کہا حضور آج کے دن پانی حرام سمجھو اور پھر کل سے یہ ساری نہریں تمہاری تابع ہیں۔۔چاہو تو اپنے لئے ایک تفریح گاہ یہاں پر بھی بنوا لینا۔۔تو اس کی لالچ پیاس پر غالب آ گئی اور اس نے چڑھنا شروع کیا۔۔
ہلکے سانس اور چھوٹے قدم لیتا ہوا۔ یہ مسافر بالآخر اوپر پہاڑ پر پہنچا تو
کیا ہی طویل میدان تھا کہ نظر دور دور تک جا کر وسیع ہی واپس لوٹتی تھی۔۔اب سورج مثل اول پر پہنچ چکا تھا۔۔۔۔
اس نے سوچا کہ اب واپس چلنا چاہیے۔۔تو وڈیرے کے ایک بندے نے کہا حضور ہمارا مالک یہاں جو بھی اپنا جانور چرنے کو چھوڑتا ہے اس سے کئی مال وصول کرتا ہے اور یہاں اس علاقے میں سینکڑوں جانور موسم بہار میں چرتے ہیں۔۔تو سوچیں یہ جگہ صرف چراہگاہ نہیں پیسوں کی بارش والی زمین ہے صرف ایک میدان بھی آپ نے احاطہ کر لیا تو آپ کی نسلیں بھی آپ کو دعائیں دیں گے۔۔۔اس مسافر کی لاتیں اب درد کر رہی تھی۔۔چلنا محال ہو چکا تھا ہر دو قدم کے بعد گرنے لگتا۔۔۔پیاس سے ہونٹ سوکھ کر کانٹا بن چکے تھے۔۔
مگر اپنی نسلوں کے لئے اس نے اس میدان کے حصول کا فیصلہ کیا کچھ سفر کیا تھا وڈیرہ بھی وہاں آ نکلا اس نے اس کی یہ حالت دیکھی تو اپنے بندے کہا:- ہمارے مہمان کی یہ حالت ہو گئی ہم کوئی اس کی جان کے دشمن ہیں۔۔اس کو پانی دیا جائے پانی کی شرط ابھی تھوڑی دیر کے لئے ختم ہے۔۔
مسافر نے یہ سنا تو قریب میں ایک جگہ پانی کا ایک حوض بنایا گیا تھا۔۔۔۔مسافر نے وہاں جب پانی پینا شروع کیا تو اتنا پی لیا کہ آنکھیں بند ہو گئی۔۔پیٹ پھٹنے کو آگیا۔۔مگر پیاس بھجنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔اور زیادہ پانی کی وجہ سے اس کو متلی ہونے لگی۔۔اور اچانک اس کے دل پر ایسا دباؤ پڑا کہ اس کی سانس ہی رک گئی اور مرنے سے پہلے اس نے صرف یہ دیکھا کہ وڈیرہ اور اس کے بندے ایک طرف کھڑے ہنس رہے تھے اور قریب ہی کچھ قبریں تھی جہاں ایک قبر مزید کھودی جا رہی تھی اور سورج غروب کے قریب پہنچ گیا تھا۔۔۔مگر غروب سے پہلے ہی اس کی زندگی ختم ہو گئی اور مسافر اپنے سارےمنصوبوں کے ساتھ خاک میں ملا دیا گیا۔۔۔۔
ہماری زندگی بھی ایسی ہی ہے اپنی جوانی میں کمانا شروع کرتے ہیں۔۔تعلیم کے حصول کے بعد شادی کے لئے کماتے ہیں۔۔پھر بچہ پیدا کرنے کے لئے کماتے ہیں۔۔پھر بچے پالنے کے لئے کماتے ہیں۔۔گاڑی کے لئے کماتے اور پھر گھر بنانے کے لئے کماتے ہیں۔۔اور کسی دن کماتے کمات مر جاتے ہیں۔۔ہم نے سوچ رکھا ہوتا ہے ابھی مشقت اٹھا لیں۔۔ بعد میں آرام کریں گے مگر وہ آرام نصیب نہیں ہوتا اور مر جاتے ہیں۔۔اور زندگی پاس کھڑی ہم پر ہنس رہی ہوتی ہے اور کسی پرانے قبرستان میں ہماری بھی قبر کھود دی جاتی ہے
اور بڑے مکان کی لالچ میں دو گز زمین میں قید کر دیے جاتے ہیں۔۔۔
کیا آپ بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔۔؟؟؟
متین احمد مغل
ایم اے اسلامیات
بدھ، 28 اگست، 2024
free lancer
وہ گھر بیٹھا بیوی کی جھڑکیاں سن رہا تھا۔۔بیوی جو برتن دھوتے ہوئے ہر برتن رکھتے ہوئے زور سے مارتی اور ساتھ ساتھ ایک کڑوی کسیلی بھی سناتی جاتی۔۔۔
کیونکہ بیوی کو خوش کرنے کے لئے صرف چاند تارے ہی نہیں۔۔روٹی بھی لا کر دینی پڑتی ہے۔۔۔اور اس بیچارے کی نوکری چلی جانے کی وجہ سے سسرال سے آئے آٹے پر گزارا کر رہا تھا۔۔
تو ہر نوالے کے ساتھ ایک کڑوی بات بھی ہضم کرنا اس کی مجبوری تھی۔۔
بیوی نے جب بہت تنگ کیا تھا تو اس نے اس نے روٹی وہی چھوڑی اور سسرال سے آئے ہوئے کچھ نقدی میں سے دس نوٹ اٹھائے ہر نوٹ پر ایک ہزار قیمت درج تھی۔۔۔
۔۔
اس نے پرنٹنگ مارکیٹ کا رخ کیا کہ وہاں۔۔۔آج کل سنا تھا کہ مندی ہے تو دو مندے لوگ مل جائے تو کسی ایک کا کام ضرور بن جاتا ہے۔۔۔
پرنٹنگ پریس پر سے اس نے پانچ ہزار کے کچھ اشتہار پمفلٹ بنائے۔۔۔
اور اس پر کچھ تحریر ایسی تھی۔۔
کہ ہمیں ہر قسم کے ہنر مند افراد کی ضرورت ہے۔۔فکس سیلری کے علاوہ کمیشن الگ دی جائے گی۔۔
فارم فل کر کے اس نمبر پر رابطہ کریں اور فارم حاصل کرنے کے لئے وٹس ایپ کریں۔۔۔۔
پانچ ہزار میں پانچ ہزار پمفلٹ مل گئے۔۔۔
اس نے پھر مزدوروں کی بستی کا رخ کیا جہاں مزدور تو ہوتے ہیں۔۔مگر کام کرنے والا کم ہی ملتا ہے۔۔
بڑی مشکل سے حالات سے تنگ آئے ایک مزدور کو کام کے لئے راضی کیا حالانکہ وہ مزدور سمجھ رہا تھا کہ یہ راشن دینے آیا ہے۔۔
بہر حال مزدور نے کام کی حامی اس شرط پر بھر لی کہ ڈبل دیہاڑ دو گے تو کام کروں گا۔۔
دو ہزار مزدور سے طے کیے۔۔
صفحہ چپکانے والی گوند کی بوتل تیار کی۔۔اور قریبی علاقے میں پانچ ہزار پمفلٹ چپکانے کا کام شروع کیا۔۔
رات کے اندھیرے میں ہر گلی میں پمفلٹ لگ چکے تھے۔۔۔۔
اس کے بعد بیوی کے پیسے اب تقریبا کچھ ہی باقی بچ گئے تھے تو اس نے پناہ گاہ میں رات گزارنے کا ارادہ کیا۔۔۔
کیونکہ شادی شدہ بندہ جب بیوی کے پیسوں پر چل رہا ہو تو گھر جانے کا مطلب۔۔۔۔اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہے۔۔
۔۔
اگلے صبح وہ اب مچھلیوں کے انتظار میں تھا۔۔۔۔۔۔
پہلی مچھلی نے رابطہ کیا کہ میں ایک ڈیجیٹل مارکیٹر ہوں۔۔اور کورس بھی بیچتا ہوں۔۔اچھا گزار ہو جاتا ہے مگر پھر بھی چاہتا ہوں۔۔اپنے ہونے والے پوتوں کے لئے مزید چار پیسے کما لوں۔۔
تو آپ مجھے فارم مہیا کریں تاکہ میں محنتی افراد میں اپنی شمولیت کروا سکوں۔۔۔
اس نے پلان کے مطابق پی ڈی ایف کی صورت فارم بھیجا۔۔۔
اور فارم کی آخری لائن میں لکھا تھا۔۔
فارم جمع کرواتے وقت پچاس روپے اس ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں بھیج کر سکرین شارٹ بھی فارم کے ساتھ ضرور بھیجنا۔۔۔۔
یہ فارم کی فیس نہیں صرف پراسیسینگ فیس ہے۔۔۔
ڈیجیٹل مارکیٹر نے فورا ہی پیسہ بھیج کر ملازمت کے لئے ایپلائی کر دیا۔۔۔
زیادہ تر ان لوگوں نے رابطہ کیا جو ڈیجیٹل فیلڈ سے تعلق رکھتے ہیں۔۔کیونکہ یہی لوگ جلد سے جلد، رات سے پہلے ، امیر ہونا چاہتے ہیں۔۔
پانچ ہزار پمفلٹ میں سے چھ سو لوگوں نے رابطہ کیا ساڈے چار سو لوگوں نے پچاس روپیہ بھی بھیج دیا۔۔
بائیس ہزار پانچ سو روپیہ اس نے ایک دن میں ہی کما لیا۔۔بیوی کے دس ہزار اس نے الگ کیے اور راشن پانی کا بندوبست کرتے ہوئے جب گھر میں داخل ہوا تو سالے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے پہلے سے ہی موجود تھے۔۔۔
اس نے راشن ایک طرف رکھا۔۔ٹافیاں نکال کر سب سالوں میں تقسیم کی ایک سالے کو اس نے بسکٹ بھی دیا کیونکہ اس نے بھی پچاس روپیہ بھیجا تھا۔۔
بیوی کے دس ہزار اس کو واپس تھمائے کہ ایک بزنس ڈیل تھی۔۔وہ ڈن ہو چکی۔۔اب روز گار لگ چکا۔۔جب تک بارش نہیں برستی اشتہار لگے رہیں گے مچھلیاں پھنستی رہیں گی۔۔
اور ہمارا روزگار چلتا رہے گا۔۔
اور سب کو جوابی میسج یہی کر رہا تھا۔۔آپ کی درخواست پر عمل درآمد جاری ہے جلد ہی رابطہ کیا جائے گا۔۔
اور یوں ایک فارغ آدمی نے فارغ لوگوں سے ہی اپنا روزگار نکال لیا۔۔۔
آپ بھی فارغ ہیں اور کسی دوسرے فارغ سے کمائی کا کورس کر رہے ہیں۔۔تو آپ بھی وہ دریا کی مچھلی ہیں۔۔جو پانی کی طلب میں سمندر سے دور جا رہی۔۔
«متین احمد مغل»
#free lancr
#scam
#fraud
#ahmed
#urdu
منگل، 14 مئی، 2024
لکھاری
جب آپ بازار جاتے ہیں تو ایک ایک چیز کے کئی سٹال اور دوکانیں ہوتی ہیں،مگرآپ اسی سٹال یا دوکان پر رکتے ہیں جس کے بلانے کا انداز آپ کو متاثر کرتا ہے یا جس کے مال لگانے
کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ آپ اپنی خریداری وہاں سے کرتے ہیں۔
اسی طرح مارکیٹ میں وہ سیلر کامیاب ہوتے ہیں جن کے ریٹ لوگوں کو سمجھ آجاتے ہیں،اسی لئے سو روپے کی سیل اور ون ڈالر کا آئیڈیا یہاں بہت کامیاب ہوا کیونکہ بیچنے والے کو بھی ریٹ سمجھانا نہیں پڑتا اور خریدنے والے کو بھی آسانی
سے سمجھ آ جاتی ہے
،
یہاں میں نےسبزی والوں کو دیکھا جب گاہک ان کے پاس سے گزرتا ہے تو اچانک آواز لگاتے ہیں "گر گیا،گر گیا سو کا نوٹ گر گیا" اور پھر گاہک کو اپنی سبزی کی طرف متوجہ کر لیتے ہیں
اسی طرح ہر جگہ آپ کی چیز آپ کے الفاظ سے بکتی ہے اگر آپ کسی کو کہیں سو روپے کی دو،
تو سمجھے گا ایک پچاس کا ہے ،مگر آپ کہیں ایک کے ساتھ ایک فری ہے اور قیمت صرف سو روپیہ تو یہاں فری زیادہ قابل غور ہوتا ہے،
اسی طرح اپنی ہر بات سمجھانے کے لئے الفاظ کا سہارا لینا پڑتا ہے الفاظ ہی کے ساتھ ہزاروں لوگ شہرت کی بلندیوں کو چھو گئے،جیسے کہ پارٹی گرل کےچند الفاظ نے ہی اسے مشہور کر دیا تھا،
اسی طرح الفاظ کی ہی بدولت سیاستدان ہمیں الو بناتے ہیں اور ہم خوشی سے بن بھی جاتے ہیں،موٹیویشنل سپیکر الفاظ کی بدولت ہی ککھ پتی سے لکھ پتی ہو گئے،
میں ایک مرتبہ بازار میں تھا ایک عورت نے دوکاندار کو کہا کہ بہن سمجھ کر مجھےپیسے کم کر دو،،
تو اس بندے کا جواب بڑا دلچسپ تھا کہنےلگا :میرے گھر ماں بہن انتظار میں بیٹھی ہیں کہ بھائی کب پیسے کما کر لائے گا اگر میں نے باہر ہی نئی بہنوں میں بانٹ دیے ،تو گھر میں بہن ۔کو کیا دوں گا،،اس لئے ریٹ میں کوئی کمی نہیں،،۔
تو اس ساری تحریر کا مقصد الفاظ کی اہمیت بتانا ہے اور میری اس تحریر سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ الفاظ کی بدولت ہی آپ نے یہ تحریر پوری پڑھی،اور اگر آپ بھی چاہتے ہیں اپنے لئے، کاروبار کے لئے،کسی بھی قسم کی کہانی دلچسپ تحریریں
لکھوانا تو مجھ سے رابطہ کریں
فی لفظ صرف ایک روپیہ اور تحقیقی تحریر لکھوانے کا ریٹ زیادہ ہو گا،،
شغل میلہ کا ریٹ اس لئے بھی کم رکھا ہے کہ ہم مغل ہیں ، شغل پسند کرتے ہیں
متین احمد مغل
پیر، 13 مئی، 2024
Real Artist
An Artist
Somewhere an artist made a big statue.
When the mayor of the city arrived for inspection, he said after reviewing:-
"He has a big nose."
So the artist picked up some clay from the ground and held his pen-like tool in his hand, and when he reached The Statue, he took his pen close to his nose and dropped the soil in his hand.
It felt like he was thinning her nose even though she hadn't done anything like that."
Then he came to the mayor.
and took him some distance from The Statue
And he said, "Yes, tell me now."
The mayor who was standing just below the statue earlier.
Now his angle changed a bit, so he started to see Stechu's nose right.
He said, "Yes, it's okay now."
And praised his work and paid for it.
And the importance of this artist also increased.
Because the artist is called the one who can receive praise from others for his art.
Because it's not just art. It is also art to present your artwork in a good way.
Because appreciation comes only when your artwork is liked.
Artist
کسی جگہ ایک آرٹسٹ نے ایک بڑا سٹیچو بنایا۔۔
جمعرات، 25 اپریل، 2024
Kasmir 3 days trip (rawlakot - banjosa lake - toli peer -bagh - ganga choti )
(راولاکوٹ--بنجوسہ لیک---تولی پیر---باغ----گنگا چوٹی)
عید کے موقع پر دو عدد تایاذاد عید ملنے آئے اور پھر تیسرے کزن سے ملنے کے بعد سیر کا پلان بنایا،
متوقع بارشوں کی وجہ سے ایسی جگہ کا پلان بنانا تھا جہاں راستہ پکا ہو۔۔پھر "کشمیر" کی طرف فائنل کیا۔
اور تین عدد بائکس پر پانچ بندے فٹ ہوئے
اور روانہ ہوئے براستہ "آذاد پتن" عید کے دوسرے دن سفر دن تین بجے شروع کیا۔
اور بائکس مسلسل چلاتے ہوئے سب سے سے پہلےراستے میں سسپینشن برج نظر آیا۔ تو وہاں رک گئے،ماشاءاللہ۔۔بڑا مضبوط پل باندھا گیا ہے، اکثر مسافر یہاں اتر کر تصاویر بنا رہے تھے
ہم نے بھی وہاں کچھ تصاویر بنائی اور دوبارہ بائکس پر سوار ہوئے۔۔ہم نے پہلا پڑاؤ راولاکوٹ کا طے کیا,
مغرب سے کچھ دیر پہلے ایک مسجد میں رکے اور وہاں عصر پڑھنے کے بعد مغرب کے وقت کا انتظار کیا اور یہاں سے مغرب پڑھ کر دوبارہ سفر شروع کیا۔
تقریبا آٹھ بجے کے قریب ہم راولاکوٹ شہر پہنچ گئے۔
اب اندھیرا ہو چکا تھا ، اس لئے اردگرد کا ماحول بھی تاریک ہی تھا۔۔عید کی وجہ سے دوکانیں وغیرہ بند تھی، یہاں ہم کھانے کے لئے کوئی اچھا سا ہوٹل تلاش کر رہے تھے ،مگر کوئی مل ہی نہیں رہا تھا
پھر ایک جعلی "بٹ کڑاہی " کے ہوٹل سے کھانا کھایا، انہوں نے کڑاہی شاید دیگچے میں ایک ہی بار تیار کر رکھی تھی ,مگر روٹیاں توے والی تازہ تیار کر کے دے
رہے تھے،کھانا یہاں تقریبا اچھا ہی تھا۔
پھر اس کے بعد ساتھیوں نے مشورہ سے طے کیا کہ رات بنجوسہ جھیل کے پاس گزارنی چاہیے تو ہم نے رات کے دس بجے وہاں کا سفر شروع کیا ،اندھیرا گہرا ہو چکا تھا،
اور جب ہم راولپنڈی سے نکلے تھے تو کافی گرم دن تھا،
مگر ہم نے اپنے ساتھ جیکٹس گرم ٹوپی اور رومال رکھ لیے تھے تو جب یہاں ٹھنڈ ہوئی تو ہم نے سب کچھ اوڑھ لیا تو سردی نے اثر نہیں کیا،
یہاں رات کی ڈرائیونگ بہت پراسرار تھی
ایک طرف ندھیرا ایک طرف کھائی ، گیلی سڑک اور وہ بھی بار بار خطرناک موڑ، شکر ہے کزن کے بائک پر ہیوی لائٹس تھی تو راستے واضح نظر آ رہے تھے ،
پھر جب ہم رات کو وہاں پہنچے تو ایک کزن کے دوست کے ریفرنس سے "ہیون ڈریم گیسٹ ہاؤس" میں ایک کمرہ بک تھا تو وہاں ہم نے پڑاؤ ڈالا،
یہ کافی اچھا گیسٹ روم تھا۔۔۔۔صاف ستھرے کشادہ کمرے۔۔
اور سب سے اہم چیز گرم پانی کے لئے بجلی والے گیزر مسلسلس چل رہے تھے۔۔
کافی رومینٹک قسم کا کمرہ تھامگر خیر ہم تو داڑھی والے کزنوں کے ساتھ تھے تو ایک ڈبل بیڈ کے علاوہ ہم نے تین عدد گدے اور کمبل لیے
یہاں پہنچنے کے ساتھ ہی نے گرم گرم چائے منگوائی بسکٹس وغیرہ میں اپنے ساتھ لے کر گیا تھا اس لئے خالی چائے نہیں پینی پڑی
آج کا پورا دن ہمارا تقریبا بائکس چلاتے ہی نکل گیا،
اور پھر یہاں چائے وغیرہ پینے کے بعد گیسٹ روم کے ارد گرد واک شروع کی، کچھ تصاویر بنائی، اندھیرا ہونے کی وجہ سے مناظر تو دکھائی نہ دیتے تھے مگر تازہ ہوا خوب محسوس ہو رہی تھی اور بارش ہونے کی وجہ سے سردی بھی تھی۔
تھوڑی دیر گیسٹ روم کے ارد گرد واک کی اور پھر کمرے میں سونے چلے گئے میرے ساتھ لیٹا ہوا کزن اونچے اونچے خراٹے بھی لے رہا تھا اور میرا کشمیر میں آ کر ویسے ہی سکون خراب ہو جاتا ہے تو میں نے ساری رات صبح ہونے کے انتظار میں گزاری
فجر کی نماز پڑھ کر روشنی ہونے کا انتظار کیا اور جب باہر گیا
تو یہاں کے قدرتی مناظر نے طبیعت تازہ
کر دی
گیسٹ روم کے ساتھ گزرتا پانی اور اس کا شور اور قدرتی جگہ پر بنایا گیا گیسٹ روم اور یہاں کے ارد گرد کا ماحول طبیعت کو خوب ہشاش کر رہا تھا
ہمارے ساتھ ایک واپڈا والا ساتھی تھا اس نے بتایا کہ بجلی کی تاریں تو یہاں نظر آتی ہیں ،مگر میٹر نہیں
بہر حال ہم نے صبح کی واک کی اور پھر کمرے میں آ کر تیار ہوئے اور آج ہمارا ارادہ تولی پیر کی طرف جانے کا تھا،
گیسٹ روم والوں نے ہم سے رہنے کا کرایہ نہیں لیا کزن کے دوست نے منع کر دیا تھا
پھر بائکس کے پاس آئے تو معلوم ہوا کہ ایک بائک پنکچر ہے۔
ایک کزن اپنے ساتھ ہر قسم کے اوزار وغیرہ ساتھ ہی لایا تھا اس میں ٹائر میں ہوا بھرنے والا پمپ بھی تھا،
ہم نے ہوا بھری اور پنکچر کی دوکان تک پہنچ گئے اور ٹیوب ساتھ ہی لائی تھی تو تبدیل کروا لی،
اور پھر یہاں سے دو منٹ کے فاصلے پر بنجوسہ جھیل تھی،
یہ ایک مصنوعی جھیل ہے یہاں مصنوعی طریقے سے پانی کو روک کر جگہ کو خوبصورت بنایا گیا ہے اور یہاں پانی میں کشتیاں بھی چل رہی تھی کافی خوبصورت جگہ تھی کچھ مناظر کی عکس بندی کی
یہاں چکوال کا ایک بندہ ملا اور کہنے لگا :- بہت دور سے آیا ہوں یہاں بس یہی کچھ ہے دیکھنے لائق یا اور بھی کچھ ہے" ہم نے کہا:- کشمیر تو دیکھنے میں ایسا ہی ہے آپ شاید فلٹر لگی ہوئی تصاویر دیکھ کر کچھ زیادہ ہی توقعات لے کر آئے تھے"
بنجوسہ لیک میں کچھ تصاویر بنانے کے بعد اب ہم نے تولی پیر کی طرف جانا تھا
مگر دس پندرہ منٹ کے فاصلے پر ایک چوک تھا جہاں راولاکوٹ سے آنے والا راستہ ،تولی پیر کی طرف جانے والا راستہ، اور بنجوسہ لیک سے آنے والا راستہ ، اور ایک مزید راستہ چاروں مل رہے تھے۔
یہاں ٹورازم پولیس کے بندے بھی موجود تھے جو چوک بلاک نہیں ہونے دے رہے تھے
اس چوک میں ایک جگہ سنگھم ہوٹل پر ہم نے ناشتہ کیا،
جب ہم ناشتہ کے لئے بیٹھنے لگے دن تو شاید بارہ بجے کا وقت ہو گا
ہم نے پوچھا پراٹھے ہیں؟
تو کہنے لگا تھوڑی دیر پہلے پکائے تھے وہ موجود ہیں،
ہم نے کہا دے دو
جب ہم یہاں پہنچے تو ہوٹل خالی تھا۔۔کچھ دیر گزری ہو گی ہوٹل رش سے بھر گیا اور اس ہوٹل نے ہماری خاطر تازہ پراٹھے بھی لگائے جب بھی ویٹر ہمارے پاس آتا ہم اس کو مزید کسی چیز کا آرڈر دیتے اور یوں ویٹر غصہ کر گیا
"ایک بار ہی بتاو بار بار مجھے تنگ نہ کرو"
ہم نے بعد میں اس کو ٹپ دے کر خوش کیا۔
ناشتہ کرنے کے بعد ہم نے تولی پیر کی طرف سفر شروع کیا
موسم آبر آلود تھا ایک طرف سے گہرے بادل آ رہے تھے اور ساتھ ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھی
ایسے سحر انگیز موسم میں ہم تولی پیر کی طرف جانے والی پختہ سڑک پر محو سفر تھے
یہاں پہاڑیوں پر اب رکشے بھی چلتے ہیں
اللہ جانے وہ کیسے وزن کھینچ لیتے ہیں یا وہاں پر ہماری شہری آنٹیاں نہیں ہوتی جو دو آنٹیاں اکھٹی رکشے میں بیٹھ جائیں تو پھنس جاتی ہیں اور واپس باہر آنا مشکل ہو جاتا ہے
بہر حال تولی پیر کی طرف راستہ تقریبا پختہ تھا ایک طرف پہاڑ تو دوسری طرف بہترین دلفریب نظارے،
تولی پیر پہنچے تو عید کا تیسرا دن ہونے کی وجہ سے یہاں کافی عوام موجود تھی۔
یہاں باہر سے آئے لوگوں سے زیادہ مقامی لوگ تھے جو یہاں تفریح کے لئے آئے ہوئے تھے۔
موٹر سائیکل پارکنگ پر لگایا بلکہ یہاں ایک جگہ انٹری فیس ہر سوار سے پچاس روپے وصولی جا رہی تھی اب سرکاری تھی یا جگا ٹیکس (واللہ اعلم)
موٹر سائیکل پارکنگ کے بعد یہاں دس پندرہ منٹ کی ہائکنگ کر کے اوپر میدان تک پہنچا جاتا ہے
آسان سا راستہ ہے
یہاں سے گھوڑے والے بھی مل جاتے ہیں جو سفر کو مزید آسان بنا دیتے ہیں
بارش برسنے سے پہلے والا حسین موسم تھا ہم پہاڑ پر چڑھنا شروع ہوئے ،سامنے پہاڑ پر جمی ہوئی برف ابھی بھی موجود تھی
مگر راستے صاف تھے شروع میں کسی نے سیڑھیاں بھی بنا رکھی ہیں
یہاں کافی ساری چھوٹی چھوٹی خیمہ والی دوکانیں موجود تھی جو بوتل چپس پانی پکوڑے بسکٹس وغیرہ فروخت کر رہی تھی۔
پھر بعض جگہوں پر برف کے ساتھ ساتھ چلنا پڑا یہاں برفباری کے بعد کافی عرصہ تک برف جمی ہی رہتی ہے
جیسے جیسے ہم پہاڑ پر چڑھ رہے تھے موسم مزید خراب ہو رہا تھا
ہمارے ایک کزن نے اوپر جانے کے لئے گھوڑا پر سواری کی اور ہم نے کالے بادلوں کو دیکھتے ہوئے اپنی برساتیاں نکال کر پہن لی اور اب ہم اوپر کی طرف جا رہے تھے اور وہاں سے لوگ بارش سے بچنے کے لئے واپس بھاگتے چلے آ رہے تھے
جیسے ہی ہم اوپر پہنچے تیز بارش شروع ہو گئی وہاں ایک بابا جی کی قبر ہے اس کے ساتھ کسی نے دو کمروں کا کچن ہوٹل بنا لیا ہے
جیسے ہی بارش شروع ہوئی۔۔اس کے دونوں کمرے لوگوں سے بھر گئے
یہاں مقامی خواتین بھی بہت زیادہ سیر کرنے آئی ہوئی تھی
بارش کچھ آہستہ ہوئی تو ہم نے یہاں بیٹھ کر کشمیریوں کی پسندیدہ ڈش لال لوبیا اور چاول کھائے۔۔اور پھر گرما گرم
چائے پی
تولی پیر کے مشہور ہونے کی دو وجہ ہیں۔۔ایک تو یہاں بلندی پر کافی زیادہ ہموار جگہ ہے اور پڑوسی ملک کے پہاڑ بھی نظر آتے ہیں۔۔اور یہاں سے ارد گرد کے مناظر بہت خوبصورت ہیں،انسان کی طبیعت پر ان نظاروں کا بہت اثر پڑتا ہے،
دوسری وجہ یہاں کے بارے میں مشہور ہے کہ جب جنگ ہوئی تھی تو یہاں کچھ سبز لباس والی مخلوق آئی تھی جو دوسری طرف سے آنے والے بار۔ ود کے گولوں کو واپس پھینک رہی تھی جس کی وجہ سے جنگ میں نقصان انہی کا ہوا تھا جنہوں نے حملہ کیا تھا (واللہ اعلم)
تولی پیر کے مناظر اور آج کے دن کے موسم نے طبیعت خوش کر دی
اور ہم گنگناتے ہوئے واپس چل دیے اچانک برف پر ایک کزن سلپ ہوا۔
پھر اٹھا تو ہمیں برف میں کوئی چیز نظر ائی دوسرے کزن نے اٹھایا تو موبائل تھا کچھ دیر بعد اس نمبر پر کال ائی تو کزن نے اپنی لوکیشن بتا کر موبائل واپس کر دیا
تولی پیر آنے کے لئے دو راستے ہیں راولاکوٹ والا راستہ صاف ستھرا ہے دوسرا راستہ جو ڈھلی ،لسڈنا کی طرف سے آتا ہے وہ کچا بھی ہے اور لینڈ سلائڈنگ بھی اکثر ہو جاتی ہے
ہم سبحان اللہ پڑھتے ہوئے پہاڑ سے اترتے رہے یہاں کثیر تعداد میں سیاح موجود تھے مقامی لوگوں کی تعداد زیادہ تھی
بارش کی وجہ سے موسم بہت خوشگوار تھا
ہم نے نیچے پہنچ کر بائک نکالے اور مشورہ ہوا کہ اب لسڈنا جانا ہے اور اب ہم نے راستہ خطرناک اختیار کیا،
اور اس راستے میں ایک طرف بڑے بڑے پتھریلے پہاڑ اور دوسری طرف گہری کھائی یہاں آبادی ہمیں نظر نہیں آئی اور کوئی دوکان یا کسی قسم کی سہولت بھی نہیں تھی بس کبھی راستہ صاف ہو جاتا کبھی کچا اور راستے میں دو جگہ لینڈ سلائڈنگ تھی گاڑی کا راستہ تو بالکل بند تھا مگر موٹر سائیکل احتیاط سے گزارے جا سکتے تھے
ایک جگہ جہاں لینڈ سلائڈنگ تھی وہاں سے موٹر سائیکل گھسیٹیا مار کر نکالنا پڑا وہاں پھسلن بھی تھی اور موٹر سائیکل بھی پھنس رہا تھا دو تین بندے مل کر موٹر سائیکل پار کر رہے تھے
اب ہم لسڈنا پہنچ کر ساتھی اکھٹے ہوئے لسڈنا میں بھی برف موجود تھی راستہ پختہ تھا سڑک کنارے برف کی وجہ سے یہاں کافی ٹھنڈک تھی
ہم لسڈنا پہنچے تو ایک کزن نے کہا محمود آباد جانا ہے کافی نیچے جا کر میں نے پوچھا کہ یہاں جانا کیوں ہے۔۔؟؟
تو پتہ چلا غلطی سے نیچے آ گئے یہاں نہیں جانا تھا
بہر حال نیچے ایک بہت پیارا ہوٹل بنا ہوا تھا جہاں بچوں کے لئے جھولے بھی تھے
پھر ہم واپس اوپر آئے اور لسڈنا میں ایک ہوٹل میں چائے کا فریضہ ادا کیا۔
اس ہوٹل میں صرف ایک باتھ روم تھا پھر یہاں قریب کوئی مسجد نہیں تھی،جو مسجد تھی وہ بھی سہولیات سے خالی تھی نیچے ایک مسجد تھی وہ بند تھی یہاں ہماری نماز رہ گئی جس کا نقصان ہمیں آگے جا کر ہوا۔
اب ہم نے کشمیر کی مشہور جگہ "باغ" جانا تھا
راستے میں نماز پڑھی تو سامنے ڈھلی میں ایک بہت پیاری جگہ تھی
دریا کے اوپر اس طرح سڑک بنائی گئی تھی کہ سڑک کے نیچے بڑے بڑے پائپ ڈال کر پانی کو بھی جاری رکھا گیا تھا اور روڈ پر ٹریفک کو بھی
مگر مجھے لگتا ہے تیز بارشوں میں سڑک نے بہہ جانا ہے
یہاں سڑک کے دونوں اطراف بہت حسین مناظر تھے یہ جگہ ایک وادی کا منظر پیش کر رہی تھی جو بھی باہر سے آیا شخص یہاں سے گزرتا وہ اس جگہ پر ضرور رکتا کیونکہ اس جگہ کی خوبصورتی کا سحر بہت زیادہ تھا ہم نے بھی کچھ شوٹنگ کی اور پھر اپنا سفر جاری کیا،
باغ سے پہلے ایک گاؤں ریڑھا اتا ہے یہاں میں پہلے وقت گزار چکا اس جگہ کے ساتھ بچپن کی کچھ یادیں بھی جڑی تھی۔مگر اب ساتھ کزن تھے تو ہم یہاں بلکل نہیں رکے اور مغرب کے وقت ہم باغ پہنچ گئے
جب ہم باغ پہنچے تو اب ایک کزن کا مشورہ تھا کہ ہم نے گنگا چوٹی جانا ہے تو ہمیں اوپر کی طرف سفر کرنا چاہیے اور وہی قریب کسی ہوٹل میں ٹھر جانا چاہیے مگر موسم کی خرابی کی وجہ سے میرا اور دوسرے ساتھیوں کا مشورہ تھا رات ہمیں باغ میں ٹھر کر صبح کا موسم دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ بارش ہوئی تو پنڈی واپس چلے جائیں گے موسم درست ہوا تو گنگا چوٹی چلے جائیں گے
مغرب کی آذان ہو رہی تھی مگر ہم نے مسجد کی جگہ ہوٹل ڈھونڈنا شروع کیا باغ اڈا شاید عید کی وجہ سے ویران تھا
ہم ہوٹل ڈھونڈ رہے تھے مگر ہمیں ہوٹل مل نہیں رہا تھا ایک ہوٹل دیوان عزیز سے پتا کیا کہ تو معلوم ہوا کوئی بڑا کمرہ نہیں دو چھوٹے کمرے ملیں گے
ایک اور ہوٹل سے پتہ کیا تو تیسری منزل تھی یہاں بھی بڑا کمرہ نہیں تھا
ان کے ہوٹل کے کمرے ہوا دار نہیں تھے
پھر ایک تیسرا ہوٹل جو باغ کا شاید بڑا ہوٹل ہے یہاں شادی حال بھی تھا
بڑا کمرہ ادھر بھی دستیاب نہیں تھا ہم کافی تھک چکے تھے تو دو نارمل کمرے یہاں ہی بک کر لیے
اس ہوٹل کا نام "ویلے ان" تھا ہم نے سامان وغیرہ کمروں میں رکھا۔
یہاں باہر کسی ہائی پروفائل شخص کی شادی بھی ہور رہی تھی جب بائک پارکنگ میں لگا کر کمروں میں پہنچے تو پتہ چلا کمروں میں پانی ہی نہیں آ رہا
ہوٹل انتظامیہ سے پوچھا تو کہنے لگے دس پندرہ منٹ تک آ جائے گا۔
پانی نہ ہونے کی وجہ سے باتھ روم کی بدبو کمروں میں پھیل چکی تھی بہر حال اس وقت کم قیمت میں یہی میسر تھا۔
میرا دل اس وقت باہر گھومنے کا کر رہا تھا میں نے اپنے پاس موجود چھوٹی بوتل سے ہی وضوء کیا اور مغرب کی قضاء بھی پڑھی اور عشاء کی نماز بھی۔
اور پھر ہوٹل کے اردگرد اکیلا ہی گھومنا شروع کیا کبھی ایک طرف جا کر بیٹھتا ،کبھی دوسری طرف اور اس دوران گھر میں کال سے گفتگو بھی کرتا رہا یہاں شادی حال میں اب بالکل شہروں کی طرح کا ماحول تھا لوگ بائکس پر بھی خواتین کے ساتھ آ رہے تھے اور وقت بھی رات نو،دس بجے کا تھا میں ہوٹل کے باہر بیٹھ کر کشمیر کے یہ نظارے بھی کرتا رہا
ایک دو گھنٹے چکر لگا کر واپس کمرے میں آیا اب بھوک بھی لگ رہی تھی تو معلوم ہوا کہ پانی ابھی بھی نہیں آ رہا
انتظامیہ کہنے لگی: "بس ادھا گھنٹہ مزید صبر کرو موٹر چل رہی ہے"
بس یہاں ہمارا صبر جواب دے گیا میں نے اپنا سامان پیک کیا ،ساتھ دوسرے کزن کو بھی کہا:- سامان پیک کرو کسی دوسری طرف جا کر ٹھہرتے ہیں,ہم نے بائک نکالا اور واپس پہلے جہاں سے پتہ کیا تھا "دیوان عزیز انٹرنیشنل " وہی پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ اب یہاں ایک ہی کمرہ ڈبل بیڈ والا خالی ہے
پھر ہم نے اس سے کہا کوئی انتظام مزید کرو تو کہنے لگا: سنگل سنگل دو کمرے مزید بھی ہیں
ہم نے کمرے دیکھے تو کافی ہوا دار تھے اور سنگل روم کے ساتھ باہر باغ شہر کا ویو بھی نظر آ رہا،
ہم بقیہ کزنوں کو بھی یہی بلا لیا۔۔
دن بھر کی تھکاوٹ اور ہوٹل کی تبدیلی کی وجہ سے گرمی لگ رہی تھی اور ہم نے فل سپیڈ پر پنکھا چلایا
ایک ڈبل بیڈ والا کمرہ دو کزنز نے سنبھال لیا ایک سنگل کمرہ دوسرے کزن نے اور میں نے بمع ایک کزن کے سنگل روم منتخب کیا اور ہوٹل انتظامیہ نے ایک عدد گدا (فوم) بھی فراہم کیا اور یوں ہم نےسنگل روم سے ڈبل والا فائدہ اٹھایا کمرہ کھلا ہونے کی وجہ سے سہولت ہو گئی تھی،
یہاں ہوٹل میں کچھ ایسے مہمان بھی ٹھہرے تھے جو ڈبل والے سگریٹ پی رہے تھے
بہر حال یہاں مچھر زیادہ تھے مگر پنکھا چلانے کے بعد اور کھڑکیاں بند کرنے کے بعد بھاگ گئے اب ہم نے سامان یہیں پر چھوڑا ہاتھ منہ دھونے کے بعد کھانے کے لئے پیدل ہی روانہ ہوئے باہر نکلے تو اچانک بجلی چلی گئی
راستے سنسان ہو چکے تھے، باغ کے مین بڑے پل کے قریب ہی یہ ہوٹل تھا
ہم نے قریب ہی ایک جگہ سے کھانا کھایا کھانا اچھے انداز میں پیش کیا گیا اور چائے بھی مزیدار تھی
یہاں اب راستے ویران اور سنسان ہو چکے تھے خاموشی کا راج تھا
(حصہ دوم)
ہم کھانا کھا کر واپس ہوٹل آئے میں جو دو دن سے جاگ رہا تھا اب تھکاوٹ سے چور ہو چکا تھا میں نے تو بستر پر سر رکھا اور اُس کے خیالوں میں کھویا پھر کس وقت معلوم نہیں سو گیا۔
صبح آنکھ کھلی تو روشنی ہو چکی تھی باہر ایک ہوٹل پر پراٹھے بن رہے تھے،
اس کے ساتھ مرغیوں والی دوکان پر مرغیاں گاڑی سے اتاری جا رہی تھی
میں گیلری کا دروازہ کھول کر باہر نکلا تو باہر کا منظر کافی خوش کن تھا
سامنے سے دریا کا راستہ نظر آ رہا تھا مگر ابھی دریا میں پانی بہت کم تھا اونچے پہاڑ بھی نظر آ رہے تھے میں کچھ لمحے سامنے نظر آتے ایک پہاڑ میں کھو گیا، جہاں میں نے بچپن کے کچھ دن گزارے تھے،
وہ گاؤں کی صبح جب سب ہی کچن کے چولہے کے گرد بیٹھ جاتے اور چولہے میں جلتی لکڑیاں اور ان سے نکلنے والا دھواں اور پھر ایک پائپ جس میں پھونک مار کر آگ کو بھڑکایا جاتا تھا اور پھر ایک کالا سا توا جس پر پراٹھے پکتے تھے،
اور دیسی گھی کی وجہ سے خوشبو پھیل جاتی تھی اور پھر زائقہ دار پراٹھے
اور اگر مرغی نے انڈا دیا ہوتا تو ناشتہ میں پراٹھے کے ساتھ دیسی انڈا اور چائے جو اپنی ہی کسی گائے سے حاصل ہونے والے دودھ سے تیار کی جاتی
اور پھر بہت کچھ یاد آتا مگر وقت کم تھا ۔۔
میں نے قبلہ ڈائریکشن کھولی اور فجر کی نماز ادا کی اور واپس بستر پر آ کر لیٹ گیا
کچھ دیر بعد دوسرے کزن بھی جاگ گئے ہم نے دوسرے کمروں سے دوسرے کزنز کو بھی ساتھ لیا اور اب ناشتہ کے لئے نکلے ہمارے ایک کزن کا پیٹ جاری ہو چکا تھا اس کے لئے ہم نے بیکری سے ناشتہ خریدا اور خود ایک ہوٹل سے جہاں پراٹھے پک رہے تھے وہاں پہنچ گئے،
چنے اور پراٹھے اور انڈے کھانا شروع کیے تو کافی سارا کھانے کے بعد جب پیٹ نے مزید ہضم کرنے سے انکار کیا تو ہم نے چائے کی طرف توجہ کی۔
"باغ" میں اب دوکانیں کھلنا شروع ہو چکی تھی اور کافی گہما گہمی تھی
ہم جب کھانا کھا رہے تھے تو ساتھ والے ٹیبل پر ایک لڑکا آ کر بیٹھ گیا جب ہم باہر نکلنے لگے تو وہ میرے پاس آ گیااور کہنے لگا "میں نے گاؤں جانا ہے اور کرایہ نہیں ہے"
حالانکہ وہ پکا کشمیری تھا اور مجھے اس کے انداز پر ہنسی آ گئی اور وہ ابھی صحیح تجربہ کار نہیں تھا
میں نے اسے انکار کر دیا
اب میرا دل کر رہا تھا کشمیر کی واحد سوغات کشمیری کلچے خریدنے کا اور یہ باغ میں اڈے کے اندر ایک مشہور دوکان ہے اسی سے ملتے ہیں
تو ہم نے یہاں سے فیول ڈلوایا اور جب اڈے پر پہنچے تو ابھی کلچہ والی دوکان نہیں کھلی تھی تو ہم واپس آ گئے
اور ہم نے پیکنگ کی ،موسم آج بھی بہت خوشگوار تھا۔
ہم نے موسم چیک کیا تو آج دن کی بارش تھی مگر اس وقت بارش نہیں تھی تو ہم نے گنگا چوٹی کی طرف روانگی شروع کی اس جگہ کو "سُدھن گلی" کہتے ہیں۔
اس کی طرف جاتا راستہ کافی چڑھائی والا تھا
اور جیسے جیسے ہم اوپر جا رہے تھے موسم آبر الود ہوتا جا رہا تھا اور یہاں کے راستے پختہ ہونے کی وجہ سے راستے کی پریشانی نہیں تھی راستے کے ساتھ ساتھ رہائشی گھر بھی تھے ،کہیں کسی گھر میں بزرگ بیٹھے باتیں کرتے نظر آتے،کسی گھر کی چھت پر بچے کھیلتے نظر آتے،
کہیں خواتین کام کرتی اور کپڑے دھوتے نظر آتی،
یہاں کافی آبادی موجود تھی ہم جب سدھن گلی پہنچے تو معلوم ہوا یہاں اوپر کافی اچھے ہوٹل موجود تھے ہمارے علم میں ہوتا تو ہم یہیں پر آتے،
مگر ہم نے نماز میں کوتاہی کی تھی تو اس لئے وہ رات کو ہوٹل والی پریشانی ہمیں پیش آئی،
یہاں ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی تھی تو ہم نے موسم کی نزاکت بھانپتے ہوئے برساتیاں پہن لی اور اب ہم نے تسلی سے اوپر کی طرف دوبارہ ڈرائیونگ شروع کی جیسے جیسے اوپر جا رہے تھے آبادی ختم ہو رہی تھی اور موسم ٹھنڈا ہو رہا تھا یہاں بھی سڑک کنارے برف پڑی ہوئی تھی جو ماحول کو مزید ٹھنڈا کر رہی تھی اور اب کشمیر کے سارے نظارے واضح ہوتے چلے جا رہے تھےاور یہی نظارے اس کو " کشمیر جنت نظیر" بناتے ہیں پہاڑ کی اونچائی سے سارے کشمیر کے پہاڑ اب نیچے رہ گئے تھے وہ آبادیاں جہاں عشق کی کہانیاں جنم لیتی ہیں اب وہ کہیں نیچے رہ چکی تھی ، وہ پہاڑ جن کی
بلندیوں پر دریا کا شور پہنچتا تھا
وہ بلندیاں بھی اب چھوٹی نظر آ رہی رہی تھی کیونکہ گنگا چوٹی بہت بلندی پر ہے یہ تو "انجن" کی وجہ سے ہم جیسے لوگوں کا اوپر پہنچنا ممکن ہوا ورنہ ہم اتنی ہائکنگ کبھی نہ کر سکتے
اب گنگا چوٹی سامنے دکھائی دے رہی تھی یہ ابھی بھی برف سے ڈھکی ہوئی تھی
ہم اس کے قریب پہنچنے سے پہلے رک گئے اور دل کو آنے والے حسین منظر کے لئے تیار کیا
یہاں کا نظارہ ابھی تک کا بہترین نظارہ تھا وہ سب پہاڑ اب چھوٹے چھوٹے دکھائی دیتے تھےجن کو ہم بلند سمجھ رہے تھے
اور ان پر بنے ٹین کے گھر اب ایک نقطے سے دکھائی دے رہے تھے کیا ہی حسین نظارہ تھا
ہم دوبارہ بائکس پر سوار ہوئے اور گنگا چوٹی کی طرف بڑھتے چلے گئے یہاں تک با آسانی گاڑی آتی ہے فیملی کے ساتھ بھی یہاں آیا جا سکتا ہے پارکنگ کے لئےکھلا میدان تھا یہاں کوئی انٹری فیس یا پارکنگ فیس نہیں تھی،
بارش شروع ہونے والی تھی یہاں ایک ٹینٹ ہوٹل تھا اور یہاں ٹینٹ ہوٹل کے کمرے بھی دستیاب تھے
گنگا چوٹی پہاڑ برف سے مکمل ڈھکا ہوا تھا اور ایسی جگہ پر میرے اندر کا دوسرا انسان جاگ جاتا ہے
میں جو یہاں شہر میں دہی لینے بھی پیدل نہیں جاتا پہاڑ کی چوٹی پر چڑھنے کے لئے بے تاب ہو گیا کزنوں سے پوچھا تو انہوں نے انکار کیا
"بارش ہونے والی ہے، جوتے صحیح نہیں پہنے اور وقت کم ہے اوپر پھسلن ہے اور اس طرح کی مزید باتیں"
یہاں پہاڑ پر کافی برف تھی بعض جوان کچھ اوپر جا کر پہاڑ پر برف کی سلائڈنگ کا مزہ لے رہے تھے مگر میرا دل سلائڈنگ سے زیادہ اوپر جانے کے لئے مچل رہا تھا
اور پھر میں نے آہستہ اہستہ ہمت پکڑی اور اوپر کی طرف نگاہ کی اور "اللہ اکبر" کہتا ہوا اوپر چڑھنے لگا یہاں صرف ایک جگہ پہاڑ پر برف میں سے گزرنا تھا دوسرے پہاڑ تک پہنچنے کے لئے اور نیچے گہری کھائی تھی۔
مگر میں یہاں ایڑھیاں دھنساتا ہوا برف کو کراس کر گیا
یہاں کافی پھسلن بھی تھی،اور بارش کی وجہ سے مزید ہو گئی
میں اوپر چڑھتا گیا سامنے پہاڑوں پر بھی برف پڑی ہوئی تھی یہاں ٹھنڈ بھی تھی بعض جوشیلے جوان اس سردی کو شکست دینے کے لئے شرٹس اتار کر تصاویر بنا رہے تھے ۔
ہم مسکین لوگ اپنے آپ کو مکمل پیک کیے ہوئے جیکٹ پہن کر اوپر برساتی پہن کر مکمل پیک تھے نہ تو اضافی جوش تھا کہ کپڑے اتارتے، چھلانگے لگاتے اور نہ ہی ایسی اداسی تھی کوئی کنارہ پکڑ کر خیالوں میں کھو جاتے،
پہاڑ پر چڑہنے کا تجربہ ہمیشہ خوش گوار رہا ہے مگر یہاں دس پندرہ منٹ سے کم ہائکنگ ہے برف اور پھسلن کی وجہ سے کچھ اضافی وقت لگتا ہے ورنہ بہت آسان ہے
چوٹی پر پہنچ کر ایک انجانی سی خوشی ہوتی ہے بلندی کا احساس ہی بلند ہوتا ہے،
نیچے نظر آنے والے لوگ اور گاڑیاں اب بہت چھوٹی نظر آ رہی تھی پہاڑ کی چوٹی پر کافی تیز ہوا تھی کسی بھی اونچے پتھر پر کھڑے ہونے سے قدم ڈگمگانا شروع ہو جاتے تھے۔
یہاں سے ارد گرد کے نظارے بہت حسین دکھائی دیتے تھے ایک طرف سے آتے کالے بادل ماحول کو ہیبت ناک کر رہے تھے میں نے اوپر پہنچ کر رب کا شکر ادا کیا۔
الحمدللہ رب نے کسی کا محتاج نہیں بنایا اور اللہ سے آئندہ کی محتاجی سے بھی پناہ مانگی
اب میں نے واپس اترنا شروع کیا
ایک بندے سے پوچھا :-"اگر میں یہاں برف پر سے پسھل کر نیچے جاو تو ٹھیک رہے گا"
تو اس نے کہا: یہ غلطی نہیں کرنی ورنہ کہیں اور پہنچ جاو گے"
تو میں نے آہستہ آہستہ نیچے اترنا شروع کیا پھسلن والی برف کراس کرنے کے بعد اب کافی نیچے آ گیا تھا
تو میں نے اب برف پر سے پھسلنا شروع کیا برساتی پہن رکھی تھی تو سلائڈنگ کا لطف بہت آ رہا تھا مگر ہاتھ برف میں زخمی اور سن ہو رہا تھا ایک جگہ پتھر تک پہنچا تو آگے جگہ کافی خالی تھی شکر ہے بچت ہو گئی ورنہ برف میں اندر ہی کہیں دھنس جاتا،
اب جب نیچے پہنچا تو ایک ہاتھ سن ہو چکا تھا نیچے ایک بندے نے آگ جلائی ہوئی تھی اور سالن پکا رہا تھا وہاں ہاتھ کو تھوڑی دیر سیکا۔۔۔اور پھر کچھ ہاتھ گرم ہوا تو اس میں جان آئی
پھر ہم سامنے بنے خیمے والے ہوٹل تک پہنچے تو تیز بارش شروع ہو گئی۔
ہلکی سی برف بھی پڑی، میں نے شکر ادا کیا کہ وقت پر نیچے پہنچ گیا تھا ورنہ اب کافی پھسلن ہو گئی ہو گی
اور جہاں ہم نے بائکس کھڑی کی تھی وہ جگہ ساری کیچڑ بن گئی تھی اور اب یہاں موٹر سائیکل سلپ ہو رہے تھے
ہم نے خیمے والے ہوٹل میں بیٹھ کر چائے پی اور یہاں کی کچھ عکس بندیاں کرنے کے بعد اب واپسی کا سفر شروع کیا
واپسی پر بائکس کو آرام سے اتارنا شروع کیا
یہاں کے مناظر انسان کے باطن کو بھی خوشگوار کر دیتے ہیں
"باغ" پہنچ کر کشمیری کلچے خریدے ابھی دوکان کھل چکی تھی چھوٹے کلچے خریدے، یہ زیادہ سختہ ہوتے ہیں۔
اڈے پر واحد دوکان ہے اور ایک دوکان میں نے سدھن گلی میں دیکھی تھی۔
اب ہم نے یہاں بغیر رکے باغ کا پل کراس کیا اور چلتے گئے اور پھر "ارجے" والے راستے سے مڑ گئے کیونکہ ہم نے کوٹلی ستیاں والےراستے سے واپس جانا تھا
کیونکہ اس راستے کے مناظر بہت حسین ہیں یہاں رش بھی نہیں ہوتا..
یہاں کچھ عرصہ پہلے ایک لکڑی کا پل ہوتا تھا۔۔جسے "کہوالہ والا پل" کہتے تھے اس پل کے ایک طرف کشمیر اور دوسری طرف پاکستان۔۔اب یہاں الحمدللہ مضبوط پل بن گیا ہے
واپسی کا سفر ہمارے لئے کافی خوشگوار ثابت ہوا
تیز بارش شروع ہو گئی اور بادل راستوں میں اتر آئے اب بیس فٹ کے فاصلے سے آگے کچھ نظر نہ آتا تھا،
میرے جیسے عینک لگانے والے لوگ یہاں بائک ڈرائیونگ میں فیل ہو جاتے ہیں۔
یوں ہم نے تیز بارش میں بھی سفر جاری رکھا ہم سب نے برساتیاں پہن رکھی تھی۔
راستہ پختہ تھا مگر موڑ بہت زیادہ ہیں اور بعض بہت خطرناک، کسی کسی جگہ پہاڑ سے گرے چھوٹے پتھر بھی راستے میں آجاتے،
اخر کار کوٹلی ستیاں پہنچ کر ایک کزن نے موٹر سائیکل روک لیا
اس نے کہا:- بوٹ پانی سے بھر چکے،ہاتھ سردی سے جم چکے، موٹر سائیکل چلاتے کافی گھنٹے ہو چکے، اب رکنا ضروری ہے اور یوں ہم کوٹلی ستیاں میں داخل ہوئے مسجد میں پہنچ کر برساتی اتاری تازہ وضوء بنایا۔۔نماز ادا کی۔
میرے بوٹ نے یہاں بھی میرا خوب ساتھ دیا پاؤں گرم رہے
کوٹلی ستیاں بھی کافی خوب صورت جگہ ہے یہاں بھی وہی دلکشی برقرار رہی تھی ،دھند ابھی بھی بہت تھی۔
یہاں جس ہوٹل میں ہم بیٹھے وہ پروفیشنل نہیں تھا۔۔چائے کافی دیر بعد پہنچائی
یہاں ہم نے کھانا نہیں کھایا،
کچھ دیر یہاں وقت گزارنے کے بعد واپسی کا سفر شروع کیا
ارادہ یہی تھا "نیلا سند" میں پہنچ کر کھانا کھائیں گےاب بارش رک چکی تھی بادل اور دھند کہیں بہت پیچھے رہ گئے تھے ،راستے ویسے ہی بڑے بڑے درختوں والے تھے
یہاں ہوٹل میں کافی رش تھی
ہم نے ابھی برساتیاں پہن رکھی تھی تو کچھ دیر یہاں مشورہ ہوا اور پھر ہم یہاں نہیں رکے کیونکہ برساتیاں اتارنی پڑتی
پھر ہم چلتے رہے اور علی پور فراش یا شاید ترامڑی، لہتراڑ روڈ میں ایک جگہ مسجد میں نماز کے لئے رکے،
میں نے جلدی سے عصر کی نماز مسجد کے صحن میں ادا کی اور ابھی باقی ساتھی ادا کر ہی رہے تھے میں نے مسجد میں شیشے سے جھانک کر دیکھا تو میں نے شمال کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی تھی تو بقیہ ساتھیوں کو آواز دی کے قبلہ کی سمت درست کرو انہوں نے نماز ہی توڑ دی حالانکہ صرف رخ تبدیل کر کے نماز کو درست کیا جا سکتا تھا،
نماز کے بعد یہی فیصلہ ہوا کھانا اپنے پنڈی پہنچ کر،
پھر ہم نے مری روڈ پہنچ کر برساتیاں اور ٹھنڈک سے بچنے کے لئے پہنے کوٹ اتارے اور سیٹلائٹ ٹاون" الجزیرہ " پہنچ گئے یہاں کافی رش تھی
دو ساتھیوں نے جگہ رکھی
اور ہم نے مسجد پہنچ کر نماز پڑھی اور پھر واپس آئے تو کچھ دیر میں چکن کڑاہی پک کر آ گئی زائقہ اچھا تھا،
اور پھر یہاں سے کھانا کھر اپنے اپنے گھروں کو پہنچ گئے اور کشمیر کا یہ ٹور الحمدللہ خیر و عافیت سے گزر گیا اور طبیعت بھی خوشگوار ہو گئی
اور یہاں راولپنڈی کا موسم بھی کافی خوشگوار تھا
متین احمد مغل
کیسا لگا آپ کو یہ سفرنامہ۔۔؟؟