بدھ، 11 ستمبر، 2024

لالچ بری بلا ہے

 ایک قصہ پڑھا تھا۔۔۔کسی علاقے میں وہاں کے وڈیرے نے لکھ کر لگایا ہوا تھا کہ اتنے پیسے دو اور صبح طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک جتنا علاقہ پیدل چل لیا تو وہ اس کا پیدل طے شدہ علاقہ اسی کے نام کر دیا جائے گا۔۔۔صرف ایک شرط کے ساتھ کہ واپسی اسی جگہ پہنچنا ہے جہاں سے چلنا شروع کیا تھا اور پانی نہیں پینا۔۔۔۔۔۔۔۔

تو ایک مسافر اس علاقے سے گزرتا ہے اور وڈیرے کا اشتہار دیکھتا ہے تو حیران ہوتا ہے کیا بہترین علاقہ تھا۔۔۔ جگہ جگہ بے شمار قسم کے درخت پانی کی ایک نہر۔۔۔جانوروں کے لئے بہترین چراگاہیں۔۔سر سبز وادی تو اس نے یہ سودا کرنے کی سوچی اور وڈیرے سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔۔۔وڈیرے سے ملاقات ہوئی اور آنے کا مقصد بتایا 

تو وڈیرے نے اس کی خوب آؤ بھگت کی۔۔مرغن غذائیں پکوائیں۔۔ بکرا زبح کیا۔۔تندوری روٹیاں کھلائی۔۔۔اور پھر رات کو قصے کہانیوں کا دور چلا آخر رات گئے سونے کی تیار کی گئی۔۔۔وہ بندہ وڈیرے کے اخلاق سے بہت متاثر ہوا۔۔۔

وڈیرے نے رات کو ہی مقرر کردہ پیسے  اس سے وصول کر لیے اور جب صبح ہوئی تو اس بندے سے اٹھا ہی نہیں جا رہا تھا۔۔رات کی بھاری غزاؤں سے اس کا جسم بھاری ہو چکا تھا۔۔

بہر حال بڑی مشکل سے وہ اٹھا اور مقرر جگہ پر پہنچا سورج طلوع ہوئے کافی دیر ہو چکی تھی۔۔اب سورج سر پر تھا۔۔مگر وڈیرے نے ہنستے ہوئے کہا:کوئی بات نہیں۔۔ہم مہمان کو اپنے سر کا تاج سمجھتے ہیں۔۔

آپ بس اب مزید دیر مت کریں۔۔چلنا شروع کریں۔۔پانی کی اجازت نہیں ہے۔۔شام کو یہی پر واپس پہنچنا ہے ۔۔اور پھر اس علاقے کے آپ ہی مالک ہیں۔۔

اس نے سفر شروع کیا۔۔وڈیرے کے دو  بندے سواری پر اس کے ساتھ ہو لیے۔۔یہ اب پیدل چلنا شروع ہوا۔۔۔

طویل میدان کے سامنے بہترین باغ نظر آ رہے تھے۔۔ اس نے سوچا یہاں سے باغات تک چلتا ہوں۔۔تاکہ تیار شدہ باغات مل جائیں۔۔پھل ملیں گے تو تجارت بھی ہو گی۔۔اور گھر میں بچے بھی خوش رہیں گے۔۔

جب باغ کی طرف چلنا شروع کیا تو دھوپ کی شدت میں تیزی آ رہی تھی۔۔۔جسم رات کی خوراک سے بھاری تھا۔۔مگر اس وقت ایک سستا سودا تھا جسے اس نے منافع میں بدلنا تھا۔۔باغ تک پہنچتے پہنچتے اس کا کافی برا حال ہو چکا تھا۔۔مگر اس نے ہمت نہ ہاری باغ میں پہنچ کر اس نے کچھ سکھ کا سانس لیا 

اور ایک درخت کے سائے میں بیٹھ کر تصور میں خود کو اس جگہ کا مالک سمجھنے لگا۔۔ابھی کچھ سانس لیا ہی تھا۔۔

کہ اس کے بندے نے کہا :- حضور یہ باغ تو کچھ نہیں سامنے وادی میں اتر کر جو نہر کنارے درخت ہیں۔۔ان کی لکڑی تو دنیا کی نایاب لکڑیوں میں سے ایک ہے۔۔اس باغ کا پھل تو ختم ہو جائے گا۔۔مگر وہ لکڑی ایسی پائیدار ہے کہ بادشاہ منہ مانگی قیمت پر خریدنے کو تیار بیٹھے ہیں۔۔

اس نے کہا:-  اچھا

 اور اس نے دوبارہ سے چلنا شروع کیا باغ کیا تھا۔۔۔۔جنت کا ایک حصہ تھا۔۔۔

مگر اس کی نظر اب قیمتی لکڑیوں کے درختوں کی طرف تھی۔۔تو اس نے چلنا شروع کیا۔۔۔اب اترائی کا سفر تھا۔۔یہاں پاؤں پھسلتے تھے۔۔مگر اترائی میں انسان پھسلتا چلا جائے تو پاتال بھی چلا جائے تو مشقت نہیں ہوتی یہ تو صرف نہر کنارے تک پہنچنا تھا۔۔۔

وہاں درختوں کی چند لکڑیاں گری نظر آئی تو اس نے چھیل کر جب ان کی خوشبو سونگھی تو نفس ہی تازہ ہو گیا۔۔ ۔۔


ایسی اعلی قسم کی لکڑی شاید ہی دنیا کے کسی کنارے میں پائی جائے یہاں یہ ان درختوں کو گننا چاہ رہا تھا۔۔مگر سینکڑوں درختوں کو کون شمار کر سکتا ہے۔۔۔۔


نہر میں پہنچ کر اس نے پاؤں وہاں لٹکائے اور پانی سے لطف اٹھانے لگا۔۔

تو وڈیرے کے آدمی نے بولا حضور لکڑی کاٹ لو گے تو بیچنے کے لئے سواریاں بھی تو رکھنی ہیں۔۔اور سواریاں رکھو گے تو چارہ کہاں سے لاؤں گے۔۔اس پہاڑ کے دوسری طرف ایسے بڑی بڑی چراگاہیں ہیں کہ پورے علاقے کے جانور سالہا سال سے یہاں چر رہے مگر نہ ہمارے مالک نے ان کو روکا نہ یہاں چارہ ختم ہوا۔۔

۔ایک دن کی محنت ہے وہ ساری چراگاہیں آپ کے نصیب میں بھی آ سکتی ہیں۔۔بس ہمت رکھیں اور چلنا شروع کریں۔۔


اس مسافر کے دل میں لالچ جاگا کہ کہ ایک دن کی محنت ہے پھر زندگی ساری کا ارام ہے۔۔اپںے لئے اور آئندہ نسلوں کے لئے۔۔ہمت تو کرنی ہی پڑے گی۔۔اب جب اس نے پہاڑ چڑھنا شروع کیا تو اس کا ایک ایک قدم کئی کئی من کا ہو گیا۔۔سانس پھولنا شروع ہو گئی۔۔دل متلی کی طرف مائل ہو گیا۔۔

پیاس نے شدت پکڑ لی۔۔۔

تو ایک بندے نے کہا حضور آج کے دن پانی حرام سمجھو اور پھر کل سے یہ ساری نہریں تمہاری تابع ہیں۔۔چاہو تو اپنے لئے ایک تفریح گاہ یہاں پر بھی بنوا لینا۔۔تو اس کی لالچ پیاس پر غالب آ گئی اور اس نے چڑھنا شروع کیا۔۔


ہلکے سانس اور چھوٹے قدم لیتا ہوا۔ یہ مسافر بالآخر اوپر پہاڑ پر پہنچا تو 

کیا ہی طویل میدان تھا کہ نظر دور دور تک جا کر وسیع ہی واپس لوٹتی تھی۔۔اب سورج مثل اول پر پہنچ چکا تھا۔۔۔۔


اس نے سوچا کہ اب واپس چلنا چاہیے۔۔تو وڈیرے کے ایک بندے نے کہا حضور ہمارا مالک یہاں جو بھی اپنا جانور چرنے کو چھوڑتا ہے اس سے کئی مال وصول کرتا ہے اور یہاں اس علاقے میں سینکڑوں جانور موسم بہار میں چرتے ہیں۔۔تو سوچیں یہ جگہ صرف چراہگاہ نہیں پیسوں کی بارش والی زمین ہے صرف ایک میدان بھی آپ نے احاطہ کر لیا تو آپ کی نسلیں بھی آپ کو دعائیں دیں گے۔۔۔اس مسافر  کی لاتیں اب درد کر رہی تھی۔۔چلنا محال ہو چکا تھا ہر دو قدم کے بعد گرنے لگتا۔۔۔پیاس سے ہونٹ سوکھ کر کانٹا بن چکے تھے۔۔

مگر اپنی نسلوں کے لئے اس نے اس میدان کے حصول کا فیصلہ کیا  کچھ سفر کیا تھا وڈیرہ بھی وہاں آ نکلا اس نے اس کی یہ حالت دیکھی تو اپنے بندے کہا:- ہمارے مہمان کی یہ حالت ہو گئی ہم کوئی اس کی جان کے دشمن ہیں۔۔اس کو پانی دیا جائے پانی کی شرط ابھی تھوڑی دیر کے لئے ختم ہے۔۔


مسافر نے یہ سنا تو قریب میں ایک جگہ پانی کا ایک حوض بنایا گیا تھا۔۔۔۔مسافر نے وہاں جب پانی پینا شروع کیا تو اتنا پی لیا کہ آنکھیں بند ہو گئی۔۔پیٹ پھٹنے کو آگیا۔۔مگر پیاس بھجنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔اور زیادہ پانی کی وجہ سے اس کو متلی ہونے لگی۔۔اور اچانک اس کے دل پر ایسا دباؤ پڑا کہ اس کی سانس ہی رک گئی اور مرنے سے پہلے اس نے صرف یہ دیکھا کہ وڈیرہ اور اس کے بندے ایک طرف کھڑے ہنس رہے تھے اور قریب ہی کچھ قبریں تھی جہاں ایک قبر مزید کھودی جا رہی تھی اور سورج غروب کے قریب پہنچ گیا تھا۔۔۔مگر غروب سے پہلے ہی اس کی زندگی ختم ہو گئی اور مسافر اپنے سارےمنصوبوں کے ساتھ خاک میں ملا دیا گیا۔۔۔۔


ہماری زندگی بھی ایسی ہی ہے اپنی جوانی میں کمانا شروع کرتے ہیں۔۔تعلیم کے حصول کے بعد شادی کے لئے کماتے ہیں۔۔پھر بچہ پیدا کرنے کے لئے کماتے ہیں۔۔پھر بچے پالنے کے لئے کماتے ہیں۔۔گاڑی کے لئے کماتے اور پھر گھر بنانے کے لئے کماتے ہیں۔۔اور  کسی دن کماتے کمات مر جاتے ہیں۔۔ہم نے سوچ رکھا ہوتا ہے ابھی مشقت اٹھا لیں۔۔ بعد میں آرام کریں گے مگر وہ آرام نصیب نہیں ہوتا اور مر جاتے ہیں۔۔اور زندگی پاس کھڑی ہم پر ہنس رہی ہوتی ہے اور کسی پرانے قبرستان میں ہماری بھی قبر کھود دی جاتی ہے

اور بڑے مکان کی لالچ میں دو گز زمین میں قید کر دیے جاتے ہیں۔۔۔

کیا آپ بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔۔؟؟؟

متین احمد مغل 

ایم اے اسلامیات 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں