ہفتہ، 23 دسمبر، 2023

9th class

 نویں کلاس میں آج غزل پڑھانی تھی۔۔چار بچے ہیں۔۔جن میں سے دو بارہ سال کے بھی ہیں۔۔

میری تقی میر کی غزل تھی۔۔۔

کچھ اشعار کی تشریح تو میں نے کر دی۔۔

بار بار اس کے در پر جاتا ہوں۔۔

حالت اب اضطراب کی سی ہے۔۔


کہ اس شعر میں شاعر کہہ رہا ہے مجھے اللہ سے بہت محبت ہے تو ہر وقت نماز کا انتظار رہتا ہے تو بار بار یعنی ایک دن میں پانچ بار مسجد جاتا ہوں۔۔اور نماز کی ہر وقت ٹینشن رہتی ہے کہیں ادا کرنے سے رہ ہی نہ جائے۔۔۔

مگر 


نازکی اس کے لب کی کیا کہیے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے۔۔


میر ان نیم باز آنکھوں میں

 ساری مستی شراب کی سی ہے


اب اس طرح کی غزل کے اشعار کی تشریح کیا کروں۔۔؟؟


کہ شاعر کو محبوبہ کے ہونٹ پنکھڑی کی طرح کیوں لگ رہے ہیں۔۔۔؟؟


اس لئے بس اسی پر اکتفاء کیا کہ انسان کو اپنی بیوی سے محبت ہوتی ہے تو شاعر کی ایک بیوی تھی اور شاعر اس کے تعریف کر رہا تھا کہ بیوی کے ہونٹ گلاب کی طرح لال ہیں اور پنکھڑی کی طرح خوبصورت ہیں۔۔

اور بیوی کی تعریف کرنے میں ثواب ملتا ہے اور بیوی کا دل خوش ہوتا ہے تو۔۔اس لئے شاعر ثواب کما رہا ہے۔۔۔

آپ کو میری تشریح کیسی لگی۔۔؟؟؟

متین احمد 

بے نام لکھاری۔۔۔

جمعہ، 22 دسمبر، 2023

رف عمل اور رف کاپی

 « رف عمل اور رف کاپی »

ابھی اسکول کے ابتدائی سال ہی تھے تو ہمیں سکھایا گیا کہ رف عمل "صحیح جواب" لانے کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے ..

اگر کوئی طالبعلم صرف اپنے ذہن پر اعتماد کرتے ہوئے بغیر رف عمل کیے جواب لکھ دیتا تھا۔۔تو وہ اکثر غلط نکل آتا تھا۔۔

۔۔

تو پہلے رف عمل صفحے کے صرف ایک طرف کیا کرتے تھے۔۔پھر جیسے جیسے بڑی کلاس میں پہنچتے گئے رف عمل کے لئے الگ سے کاپی لینا شروع کی۔۔پھر دسویں میں رف عمل کے لئے انتہائی موٹا رجسٹر لے لیا۔۔پھر ایک وقت ایسا بھی  آیا کہ صرف رف عمل کے زریعے ہی کانسیپٹ کلیئر کرتے نِیٹ کام کی ضرورت ہی ختم ہو گئی۔۔

نیٹ کام صرف پریزینٹیشن کے لئے رہ گیا۔۔

۔۔

لیکن جب عملی زندگی میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ عام زندگی میں بھی جو پروفیکٹ کام ہوتا ہے اس کے پیچھے ڈھیر سارا رف عمل ہوتا ہے۔۔۔

مگر ہمارے بڑوں نے ہم سے یہ توقعات لگا لی کہ ہم ابتداء میں ہی جو بھی کام کریں اس کا نتیجہ پروفیکٹ ہی ہو۔۔


اور یہی سے مسائل پیدا ہونے شروع ہوتے ہیں۔۔بچے تعلیم کے فورا بعد ڈیپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔۔اور والدین بچے کی تعلیم کو بے کار سمجھ لیتے ہیں۔۔

۔۔

حالانکہ والدین کو سوچنا چاہیے جس طرح صرف ایک سوال حل کرنے کے لئے اکثر ایک، دو صفحہ صرف رف عمل میں چلے جاتے تھے۔۔

اگر زندگی کے کچھ سال بھی آپ کے بچے نے رف عمل میں نکال دیے تو وہ یقینا ایک دن پروفیکٹ کام آپ کے سامنے پیش کرے گا۔۔

بس ہمت اور حوصلہ رکھنا ضروری ہے۔۔۔

اور آپ کو بھی چاہیے اپنی عملی زندگی میں رف کام کے لئے ضرور جگہ رکھیں ہر کام شروع سے ہی پروفیکٹ نہیں ہوتا۔۔کچھ سال رف عمل میں گزارنے پڑتے ہیں۔۔۔

کیا آپ بھی اپنی عملی زندگی میں رف عمل کو اہمیت دیتے ہیں۔۔؟؟؟ 

متین احمد 

(بے نام لکھاری) 

22 دسمبر 2023 صبح

اتوار، 10 دسمبر، 2023

«آج کا فراڈ»

 «آج کا فراڈ»

میں اپنے معمول کے مطابق صبح کام پر جا رہا تھا۔۔ا
گیارہ بجے کے قریب۔۔میں ابھی چوہڑ چوک سے آگے جہاں ماڈل بازار ہے وہاں سے گزر رہا تھا۔۔
تو معمول کے مطابق ایکسائز اور پاسنگ اور پرمٹ چیک کرنے والوں نے روکا۔۔اور یہ اکثر روکتے ہیں۔۔
میرے پاس سوزوکی پک اپ پے لوڈنگ والی تو۔۔
اس کے لئے تین چیزیں ضروری ہیں۔۔
ایک روٹ پرمٹ جہاں گاڑی چلانے کی اجازت ہوتی ہے۔۔میرے پاس راولپنڈی کا پرمٹ ہے اس کی مدت تین سال ہوتی ہے۔۔
دوسری چیز گاڑی کا فٹنس سرٹیفکیٹ۔۔یہ ہر چھ ماہ بعد ہوتا ہے۔۔
اور میرے پاس فٹنس سرٹیفکیٹ جنوری دو ہزار چوبیس تک کا ہے۔۔
تیسری چیز ٹوکن ٹیکس ہے یہ ہر سال کا ٹیکس ہوتا ہے جو ہمیں حکومت کو دینا ہوتا ہے۔۔
میرے پاس یہ تینوں چیزہں موجود تھی۔۔۔
مگر ایکسائز اہلکار نے اپنے دفتر کے باہر مجھے روک دیا۔۔
میں نے معمول کے مطابق اپنے تمام کاغذات ان کو پیش کر دیے۔۔
اور کہا اپ روز روکتے ہو۔۔کوئی سٹیکر لگوا دو۔۔تاکہ آپ کا وقت ضائع نہ ہو۔۔
اس نے پرمٹ دوسرے اہلکار کو دیا۔۔میں اس جگہ اکثر سب کچھ چیک کرواتا ہوں۔۔ایک دن پہلے بھی میں نے چیک کروایا تھا۔۔
مگر اس نے کہا باہر آ جاو۔۔میں باہر اتر آیا۔۔
اب وہ اہلکار مجھے کہہ رہا ہے پاسنگ کہاں ہے۔۔میں نے اس کو ایک کاغذ کے طرف اشارہ کر کے کہا یہ ہے۔۔
کہنے لگا "تو ہن سانوں قانون پڑھاسے "
وہ اسلام آباد کا فٹنس سرٹیفکیٹ تھا۔۔وہ کہنے لگا ہمیں پنڈی کا چاہیے پھر پرمٹ کی طرف کہنے لگا کہ یہ ایکسپائر ہے حالانکہ پرمٹ تین سال ک ہوتا ہے اور میں نے خود پرمٹ رینیو کروایا تھا۔۔
میں نے کہا اس پرمٹ پر دو ہزار چوبیس لکھا ہے۔۔
کہنے لگا "تو زیادہ سمجھدار ہیں تیری گڈی بند کرنی پیسی"
کہنے لگا پنڈی کا پرمٹ چاہیے۔۔میں نے کہا یہ سامنے پنڈی ایریا لکھا ہے جہاں میں کھڑا ہوں۔۔کہنے لگا تیری گڈی بند ہو گئی ہے اس کے پاس ایک پرچی تھی۔۔اس نے اس پر میرا نام لکھا اور کہا گاڑی دفتر میں لے جاو اب پیسے جمع کرواو۔۔
میں نے اسے کہا میرے کاغذات میں جو چیز کم ہے وہ بتاو تاکہ میں وہ پورے کر سکو۔۔
وہاں دوسرے اہلکار کو میں نے کاغذ دکھایا تو اس نے کہا تیری چیزیں پوری ہیں۔۔تجھے کیوں روک رہے ہیں۔۔پھر جس بندے نے مجھے روکا تھا وہ زبردستی میرے ساتھ بیٹھ کر مجھے دفتر کے اندر لے گیا۔۔دفتر فٹنس سرٹیفکیٹ کا تھا۔۔یہاں گاڑیوں کی فٹنس چیک کی جاتی تھی۔۔مگر میرا ایک مہینہ رہتا تھا۔۔مگر یہ بضد تھے کہ تمہارے پاس فٹنس سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔۔
میں پھر ٹریفک اہلکار کے پاس گیا کہ میرے کاغذات چیک کریں میری گاڑی بند کی ہے۔۔اس نے کہا تمہارے کاغذات تو ٹھیک ہیں کس نے گاڑی روکی ہے میں نے بتایا تو کہنے لگا کہ اب میں تو کچھ نہیں کر سکتا۔۔انہی سے پوچھو۔۔
وہ بندہ فراڈی بار بار اگے پیچھے پھرتا رہا میں اس سے بار بار پوچھتا رہا کہ میرا حل بتاو اس نے ایک جگہ کا نام لیا صدر میں ویران اڈہ ہے وہاں دفتر میں چالان جمع ہوتا ہے پھر آپ کی گاڑی کھلے گی۔۔
میں نے وہاں پاسنگ کے لئے بھی پیسے جمع کروائے۔۔اور انہوں نے چودہ دن کا وقت دیا کہ چودہ دن کے اندر اندر اپ گاڑی کا فٹنس سرٹیفیکٹ لے سکتے ہیں گاڑی چیک کروا کر۔۔
اب میں دوبارہ اس بندے کے پاس آیا اس کے ماتحت کا نام امتیاز تھا۔۔
اس نے کہا جب تک ویران اڈے والا چالان جمع نہیں ہو گا۔۔گاڑی باہر نہیں نکلے گی۔۔
میں نے پھر بھائی کو بھیجا بائیکیا پر وہ وہاں صدر میں ویران اڈے کی پرانی سی سرکاری عمارت میں گیا وہاں باہر ایجنٹ کھڑے تھے۔۔دفتر کے اندر بندے نے بھائی سے دو ہزار پکڑے نہ کوئی رسید نہ کوئی ثبوت۔۔
اس نے کہا واپس دفتر جاو امتیاز کو کہنا فون کرے تمہاری گاڑی چھوڑ دیں گے بھائی بائیکیا پر ہی واپس آیا۔۔
اور پھر اس نے اس کو فون کیا اور ہماری گاڑی باہر آنے دی۔۔اب میں بازار دو بجے پہنچا۔۔آج میری اچھی سیل کا دن تھا۔۔اس لئے مجھے بازار پہنچنے کی ٹینشن تھی۔۔
اس لئے جلد بازی میں سارا کام ہوا۔۔چھٹی کا دن ہوتا تو وہاں بیٹھ کر تسلی سے سوچتا کہ یہ ویران اڈے میں کس چیز کے پیسے وصولے جا رہے ہیں۔۔
آہستہ آہستہ ملک کے اداروں سے نفرت ہوتی جا رہی ہے کیونکہ کوئی بھی ملک اپنے اداروں کے سہارے کھڑا ہوتا ہے ادارے ہی عوام کا استحصال کریں تو نفرت ادارے سے نہیں ملک سے ہو جاتی ہے۔۔
مجھے کوئی بندہ بتا سکتا ہے مجھ سے کس چیز کے پیسے لیے گئے۔۔حالانکہ میں نے اسلام آباد ٹریفک پولیس والوں سے فون کر کے پوچھا بھی تھا۔۔کہ میرا فٹنس سرٹیفکیٹ راولپنڈی میں قابل قبول ہے یا نہیں انہوں نے کہا تھا۔۔قابل قبول ہے۔۔
تو آج کا دن تو میں نے سرکاری ادارے پر لعنت ہی بھیج ہے۔۔۔
تو فیس بک پر تحریر لکھ دی تاکہ ثبت رہے۔۔۔
اس کے علاوہ میرے پاس کوئی پلیٹ فارم یا سہارا نہیں جہاں سے مجھے معلوم ہو سکے۔۔میرے سے کس چیز کے پیسے لیے گئے جن کا کوئی ثبوت بھی نہیں۔۔۔؟؟
#Rawalpindi
#punjab
#Pakistan