جب آپ بازار جاتے ہیں تو ایک ایک چیز کے کئی سٹال اور دوکانیں ہوتی ہیں،مگرآپ اسی سٹال یا دوکان پر رکتے ہیں جس کے بلانے کا انداز آپ کو متاثر کرتا ہے یا جس کے مال لگانے
کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ آپ اپنی خریداری وہاں سے کرتے ہیں۔
اسی طرح مارکیٹ میں وہ سیلر کامیاب ہوتے ہیں جن کے ریٹ لوگوں کو سمجھ آجاتے ہیں،اسی لئے سو روپے کی سیل اور ون ڈالر کا آئیڈیا یہاں بہت کامیاب ہوا کیونکہ بیچنے والے کو بھی ریٹ سمجھانا نہیں پڑتا اور خریدنے والے کو بھی آسانی
سے سمجھ آ جاتی ہے
،
یہاں میں نےسبزی والوں کو دیکھا جب گاہک ان کے پاس سے گزرتا ہے تو اچانک آواز لگاتے ہیں "گر گیا،گر گیا سو کا نوٹ گر گیا" اور پھر گاہک کو اپنی سبزی کی طرف متوجہ کر لیتے ہیں
اسی طرح ہر جگہ آپ کی چیز آپ کے الفاظ سے بکتی ہے اگر آپ کسی کو کہیں سو روپے کی دو،
تو سمجھے گا ایک پچاس کا ہے ،مگر آپ کہیں ایک کے ساتھ ایک فری ہے اور قیمت صرف سو روپیہ تو یہاں فری زیادہ قابل غور ہوتا ہے،
اسی طرح اپنی ہر بات سمجھانے کے لئے الفاظ کا سہارا لینا پڑتا ہے الفاظ ہی کے ساتھ ہزاروں لوگ شہرت کی بلندیوں کو چھو گئے،جیسے کہ پارٹی گرل کےچند الفاظ نے ہی اسے مشہور کر دیا تھا،
اسی طرح الفاظ کی ہی بدولت سیاستدان ہمیں الو بناتے ہیں اور ہم خوشی سے بن بھی جاتے ہیں،موٹیویشنل سپیکر الفاظ کی بدولت ہی ککھ پتی سے لکھ پتی ہو گئے،
میں ایک مرتبہ بازار میں تھا ایک عورت نے دوکاندار کو کہا کہ بہن سمجھ کر مجھےپیسے کم کر دو،،
تو اس بندے کا جواب بڑا دلچسپ تھا کہنےلگا :میرے گھر ماں بہن انتظار میں بیٹھی ہیں کہ بھائی کب پیسے کما کر لائے گا اگر میں نے باہر ہی نئی بہنوں میں بانٹ دیے ،تو گھر میں بہن ۔کو کیا دوں گا،،اس لئے ریٹ میں کوئی کمی نہیں،،۔
تو اس ساری تحریر کا مقصد الفاظ کی اہمیت بتانا ہے اور میری اس تحریر سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ الفاظ کی بدولت ہی آپ نے یہ تحریر پوری پڑھی،اور اگر آپ بھی چاہتے ہیں اپنے لئے، کاروبار کے لئے،کسی بھی قسم کی کہانی دلچسپ تحریریں
لکھوانا تو مجھ سے رابطہ کریں
فی لفظ صرف ایک روپیہ اور تحقیقی تحریر لکھوانے کا ریٹ زیادہ ہو گا،،
شغل میلہ کا ریٹ اس لئے بھی کم رکھا ہے کہ ہم مغل ہیں ، شغل پسند کرتے ہیں
متین احمد مغل