*ایک مختصر مگر دشوار سفر*
kumrat کمراٹ
منگل کے دن مغرب کی نماز پڑھائی تو پسینے سے شرابور ہو چکا تھا..کچھ دوست ایک سفر کی پلاننگ کر رہے تھے....
بس اچانک میرا ارادہ بنا اور عشاء کی نماز پڑھانے کے فورا بعد مسجد کی چابی منتظمین تک پہنچائی اور ایک چھوٹا سا پاکستانی بیگ لیا اور اڈے کے طرف راونہ ہو گیا...
گیارہ بجے گاڑی اپر دیر کی طرف چلنا شروع ہوگئی...ہزار روپے فی سواری تھی...
رات سوتے ہی گزر گئی جب صبح انکھ کھلی تو دیر کے حسین مناظر سامنے جلوہ افروز تھے...
نماز پڑھنے کے بعد جب اڈے میں واپس آئے تو ارد گرد ہمیں جاھل سمجھ کر وہاں کے ڈرائیور آ گئے...اب تھل جانا تھا...لوگ دس ہزار تک مانگ رہے تھے...
پھر ہم نے بھی سکون سے اگے پیچھے دیکھا کچھ دیر بعد ہم نے ارد گرد سے چودہ بندے اکھٹے کیے...اور ایک گاڑی کو فی سواری چھ سو دے کر وادی کمراٹ پہنچ گئے....!!
دن کا وقت ہو چکا تھا...
لیکن اس انتہائی حسین وادی میں صبح کا سا موسم تھا....
پھر ایک ٹین کی چادروں اور لکڑی سے بنے ہوٹل میں کمرہ بک کیا...
اور کھانے کا ارڈر دے کر سو گئے گھنٹے بعد جب کھانا تیار ہوا تو کھانا کھایا سفر کی تھکاوٹ کم ہو چکی تھی...
اور پھر پیدل ہی ابشار کی طرف چل دیے دو گھنٹے
بعد أبشار پہنچ گئے...
(کالا چشمہ جانے کی بے وقوفی نہیں کی)
پھر واپسی کا سفر کیا...اور ایک ڈھابے سے انڈہ، پراٹھا کھایا اور چائے پی...
ہمارا ہوٹل والا ذرا مہنگا تھا...اس لئے اِدھر سے کھایا.. عصر،مغرب اسی چھوٹے ہوٹل میں پڑھی...
اندھیرا ہو چکا تھا...
اب واپس ہوٹل پہنچے......یہاں جنریٹر چل رہا تھا..
سب دوستوں کے موبائل چارجنگ پر لگائے..
رات ساڈے دس تک موبائل چارج ہو گئے...
پھر کمرے میں گھس کر سو گئے...صبح سات کے قریب آنکھ کھلی اور پھر...
ہم نے تیاری پکڑی...پانی خوب ٹھنڈا تھا...ہمارے ہوٹل کے ساتھ سے ہی پنجگور دریا گزر رہا تھا...
پھر پیدل ہی روانہ ہوئے وادی کمراٹ میں پونا گھنٹہ پیدل چلتے رہے....
اخر ایک لینڈ کروزر والے کو پندرہ سو دیے اور تھل پہنچے...
یہاں ایک بات یاد رکھیں تھل کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے...تھل میں سب کچھ مل جاتا ہے...
پھر تھل سے ایک لینڈ کروزر کو 3500 دیے جس نے ہمیں گام سیر(نام مجھے بھول گیا) اتارا....
وہاں سے چار گھنٹے پیدل پہاڑ پر چڑھے...
اور جاز بانڈہ پہنچے...
جاز بانڈہ میں بھی لکڑی اور ٹین سے بنے ایک ہوٹل میں کمرہ بک کیا 1600 میں اور پھر مجھے پیدل چلنے کی وجہ سے سب کچھ قے ہو گیا...اور پھر میں بستر پر دراز ہو گیا...
الٹی والی گولی کھائی اور سو گیا...آنکھ کھلی تو رات کے نو ہو چکے تھے...
دوست کھانا کھا چکے تھے...
ایک روٹی بچی تھی وہی میں نے چائے کے ساتھ کھائی...
اور پھر رات کو جاز بانڈہ کی وادی میں لمبے لمبے سانس لیے...
|
کٹورہ میں آرام |
|
کٹورہ جھیل |
|
پیچھے کٹورہ جھیل کا دشوار اور طویل راستہ نظر آ رہا ہے |
|
کمراٹ کی حسین شام کا ایک منظر |
|
جاز بانڈہ |
|
وہاں ایسی گاڑیاں سستے میں مل جاتی ہیں |
|
اخروٹی مسجد |
|
چشمہ |
|
وادی کمراٹ |
پھر واپس سو گیا اور اگلے دن صبح ساڈے چار بجے اٹھے اور کٹورہ جھیل کی طرف رواں دواں ہو گئے راستے میں ایک چھوٹی جھیل آئی....
اور ساتھ بلند و بالا پہاڑ کسی خدا کے ہونے کا ثبوت دے رہے تھے...
ان کے درمیان چلتے ہوئے ہم انسانوں کی عاجزی کھل کر ظاہر ہو جاتی ہے...کسی کسی جگہ پہاڑ گرے پڑے تھے...
میں چھوٹی جھیل سے بڑے بڑے پتھروں کی طرف چل دیا...اور یوں میرا سفر مزید لمبا اور کٹھن ہو گیا...مجھے لمبی لمبی چھلانگیں نوکلیے اور بڑے پھسلتے پتھروں پر لگانی پڑی اس طرف کوئی بھی نہیں آتا تھا...پھر ایک گھنٹہ کے مشکل سفر کے بعد سیدھے ٹریک پر آیا...
پھر مزید دو گھنٹے بعد اخر کٹورہ جھیل پہنچ گیا...
مگر اس جھیل پر جانے کے لئے تھوڑی سی کلائمنگ کرنی پڑی اور یہاں پھسلن بھی بہت تھی...
...
کٹورہ جھیل ایک دائرہ کی شکل میں موجود ہے جس کے چاروں طرف پہاڑ دائرہ کی صورت بناتے ہیں اور ایک طرف برف سے ڈھکے پہاڑ تھے...
جس پر دھوپ پڑنے سے وہ پگل کر پانی بن رہا تھا...
اور یہ ایک قدرتی ڈیم ہے جس کے صرف ایک طرف سے پانی باہر کی طرف جاتا ہے...اور یوں ایک لمبی نہر دریا کی صورت بن جاتی ہے...
اور وادی کا حسن مزید دوبالا ہو جاتا ہے...کٹورہ جھیل میں ابلے ہوئے انڈے کھائے اور چائے پی...
اس ایک ابلے انڈہ پر میں مزید چھ گھنٹہ پیدل چلا...
پھر واپسی کا سفر شروع کیا...اور کٹورہ سے جاز بانڈہ کے لئے میں نے ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا جو انتہائی مشکل اور دریا کے بائیں طرف تھا...
یہاں بہت حسین و جمیل نظارے تھے...
دن کو گیارہ بجے واپس جاز بانڈہ پہنچا...متلی والی ہلکی سے کیفیت اب بھی موجود تھی...
پھر گولی کھائی،ایک گھنٹہ سویا اور پھر ہوٹل والے کا بل ادا کرنے کے بعد...
اچانک اولے برسنا شروع ہو گئے اور تیز بارش ہونے لگی...کچھ دیر بعد بادش تھمی تو ہم نے جاز بانڈہ سے گام سیر کی طرف اترنا شروع کیا...
انتہائی پھسلن تھی...ایک بات بتاتا چلو کہ پیدل جگہوں پر گدھے اور گھوڑے بھی مل جاتے ہیں جو ہزار روپے میں بندے کو لے کر اوپر چھوڑ آتے ہیں...
واپسی میں ایک دوست گھوڑے پر جانا چاہتا تھا...
لیکن پھسلن کی وجہ سے گھوڑے والے نے منع کر دیا...
اور یوں ہم پیدل ہی اترے...
مگر میں نےدوڑ لگائی اور ایک گھنٹہ دس منٹ میں میں نیچے پہنچ چکا تھا...
پھر وہاں سے ایک لینڈ کروزر بک کی جس کو تین ہزار دیے...
اس نے تھل اتارا...
یہاں ایک بات بتاتا چلو کہ گام سیر سے اٹھ سو میں گاڑی مردان کی مل جاتی ہے...
لیکن ہماری لاعلمی کی وجہ سے ہمارا کرایہ زیادہ لگ گیا...کیونکہ تھل پہنچنےکے بعد جب تیز بارش ہو رہی تھی..توعصر کی نماز پڑھی تو ایک گاڑی مسجد کے ساتھ سے ہی مردان سات سو روپے میں جا رہی تھی...ہم اس میں بیٹھے اور یوں صبح ساڈے چار مردان پہنچے...
راستہ میں ڈرائیور نے ایک دوسرے ڈرائیور کو گاڑی دی..خود چھت پر چلا گیا...
لیکن جب بارش تیز ہوئی تو وہ نیچے اتر ایا اور دو ڈرائیور ایک سیٹ پر...بیٹھ گئے..
میں نے دوستوں کو بتایا تو ایک کہنے لگا دعا پڑھی ہے...خیر ہے..دوسرا کہنے لگا شہادت کی موت ائے گی..
میں نے کہا ایسی شہادت بھاڑ میں گئی...تیسرا کہنے لگا چل چپ کر رہنے دے...
لیکن میرے سے برداشت نہیں ہو رہا تھا...گاڑی میں اٹھارہ بندے تھے سب خاموشی سے دیکھتے رہے...
لیکن میں نے شور ڈال دیا کہ یہ بتاو گاڑی چلا کون رہا ہے...باہر بارش بھی ہو رہی ہے...پہاڑی سفر ہے اور تم سرکس دکھا رہے ہو پھر ایک غصہ سے اوپر چلا گیا...اور دوسرا...فل ریس دے کر اب گاڑی چلانے لگا...
خیریت سے مردان پہنچے..
گاڑی پنڈی جانےکے لئے سامنے کھڑی تھی. کرایہ تین سو کہ رہا تھا ہم نے سامان رکھا ڈرائیور آیا اس سے پھر میں نے پوچھا کرایہ کتنا ہے...؟؟
کہنے لگا ساڈے تین سو....
میں نے کہا ابھی تین سو تمہارے کنڈکٹر نے کہا ہے...
کہنے لگا اسی کے ساتھ چلے جاؤ ہم نے سامان اٹھایا مسجد چلے گئے نماز پڑھی واپس آئے ایک اور گاڑی پنڈی جا رہی تھی. .اس میں بیٹھے اور پھر صبح کے سات بجے ہمارا سفر اختتام پزیر ہوا...
اس سفر میں تین دن لگ گئے...