Ahmed (متین احمد)
میں ایک مزاحیہ عالم دین ہوں،مزاحیہ لکھاری ہوں طنز و مزاح ہی اپنا اوڑھنا بچھونا ہے
اتوار، 15 دسمبر، 2024
بدھ، 4 دسمبر، 2024
file hide hidden file
بچپن میں ایک رسالہ پھول یا تعلیم و تربیت آتا تھا۔۔اس میں ایک صفحہ کمپیوٹر سکھانے کا بھی ہوتا تھا۔۔۔
ایک مرتبہ اس میں فائل کو ہائیڈ(چھپانے) کا طریقہ بتایا گیا تھا۔۔
میں نے فورا اس طریقہ پر عمل کر کے اپنی ساری چیزیں ہائیڈ کر دی۔۔۔
اور جب وہ ہائیڈ ہو گیا تو اب اس رسالے میں لکھا تھا کہ ان شاءاللہ اگلے مہینے ہم فائل کو واپس شو کرنے (ظاہر ) کا طریقہ سکھائیں گے۔۔۔۔
اور یہ پہلا دکھ تھا جو بچپن میں ملا تھا۔۔۔ویسے ہی بیٹھے بیٹھے آج یہ واقعہ یاد آ گیا۔۔
آپ کے بچپن کا کوئی ایسا واقعہ۔۔؟؟
متین احمد مغل
#بےنام_لکھاری
#احمد
#hidden file
#file_hide
#hidden_file
#hiddenfolder
بدھ، 11 ستمبر، 2024
لالچ بری بلا ہے
ایک قصہ پڑھا تھا۔۔۔کسی علاقے میں وہاں کے وڈیرے نے لکھ کر لگایا ہوا تھا کہ اتنے پیسے دو اور صبح طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک جتنا علاقہ پیدل چل لیا تو وہ اس کا پیدل طے شدہ علاقہ اسی کے نام کر دیا جائے گا۔۔۔صرف ایک شرط کے ساتھ کہ واپسی اسی جگہ پہنچنا ہے جہاں سے چلنا شروع کیا تھا اور پانی نہیں پینا۔۔۔۔۔۔۔۔
تو ایک مسافر اس علاقے سے گزرتا ہے اور وڈیرے کا اشتہار دیکھتا ہے تو حیران ہوتا ہے کیا بہترین علاقہ تھا۔۔۔ جگہ جگہ بے شمار قسم کے درخت پانی کی ایک نہر۔۔۔جانوروں کے لئے بہترین چراگاہیں۔۔سر سبز وادی تو اس نے یہ سودا کرنے کی سوچی اور وڈیرے سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔۔۔وڈیرے سے ملاقات ہوئی اور آنے کا مقصد بتایا
تو وڈیرے نے اس کی خوب آؤ بھگت کی۔۔مرغن غذائیں پکوائیں۔۔ بکرا زبح کیا۔۔تندوری روٹیاں کھلائی۔۔۔اور پھر رات کو قصے کہانیوں کا دور چلا آخر رات گئے سونے کی تیار کی گئی۔۔۔وہ بندہ وڈیرے کے اخلاق سے بہت متاثر ہوا۔۔۔
وڈیرے نے رات کو ہی مقرر کردہ پیسے اس سے وصول کر لیے اور جب صبح ہوئی تو اس بندے سے اٹھا ہی نہیں جا رہا تھا۔۔رات کی بھاری غزاؤں سے اس کا جسم بھاری ہو چکا تھا۔۔
بہر حال بڑی مشکل سے وہ اٹھا اور مقرر جگہ پر پہنچا سورج طلوع ہوئے کافی دیر ہو چکی تھی۔۔اب سورج سر پر تھا۔۔مگر وڈیرے نے ہنستے ہوئے کہا:کوئی بات نہیں۔۔ہم مہمان کو اپنے سر کا تاج سمجھتے ہیں۔۔
آپ بس اب مزید دیر مت کریں۔۔چلنا شروع کریں۔۔پانی کی اجازت نہیں ہے۔۔شام کو یہی پر واپس پہنچنا ہے ۔۔اور پھر اس علاقے کے آپ ہی مالک ہیں۔۔
اس نے سفر شروع کیا۔۔وڈیرے کے دو بندے سواری پر اس کے ساتھ ہو لیے۔۔یہ اب پیدل چلنا شروع ہوا۔۔۔
طویل میدان کے سامنے بہترین باغ نظر آ رہے تھے۔۔ اس نے سوچا یہاں سے باغات تک چلتا ہوں۔۔تاکہ تیار شدہ باغات مل جائیں۔۔پھل ملیں گے تو تجارت بھی ہو گی۔۔اور گھر میں بچے بھی خوش رہیں گے۔۔
جب باغ کی طرف چلنا شروع کیا تو دھوپ کی شدت میں تیزی آ رہی تھی۔۔۔جسم رات کی خوراک سے بھاری تھا۔۔مگر اس وقت ایک سستا سودا تھا جسے اس نے منافع میں بدلنا تھا۔۔باغ تک پہنچتے پہنچتے اس کا کافی برا حال ہو چکا تھا۔۔مگر اس نے ہمت نہ ہاری باغ میں پہنچ کر اس نے کچھ سکھ کا سانس لیا
اور ایک درخت کے سائے میں بیٹھ کر تصور میں خود کو اس جگہ کا مالک سمجھنے لگا۔۔ابھی کچھ سانس لیا ہی تھا۔۔
کہ اس کے بندے نے کہا :- حضور یہ باغ تو کچھ نہیں سامنے وادی میں اتر کر جو نہر کنارے درخت ہیں۔۔ان کی لکڑی تو دنیا کی نایاب لکڑیوں میں سے ایک ہے۔۔اس باغ کا پھل تو ختم ہو جائے گا۔۔مگر وہ لکڑی ایسی پائیدار ہے کہ بادشاہ منہ مانگی قیمت پر خریدنے کو تیار بیٹھے ہیں۔۔
اس نے کہا:- اچھا
اور اس نے دوبارہ سے چلنا شروع کیا باغ کیا تھا۔۔۔۔جنت کا ایک حصہ تھا۔۔۔
مگر اس کی نظر اب قیمتی لکڑیوں کے درختوں کی طرف تھی۔۔تو اس نے چلنا شروع کیا۔۔۔اب اترائی کا سفر تھا۔۔یہاں پاؤں پھسلتے تھے۔۔مگر اترائی میں انسان پھسلتا چلا جائے تو پاتال بھی چلا جائے تو مشقت نہیں ہوتی یہ تو صرف نہر کنارے تک پہنچنا تھا۔۔۔
وہاں درختوں کی چند لکڑیاں گری نظر آئی تو اس نے چھیل کر جب ان کی خوشبو سونگھی تو نفس ہی تازہ ہو گیا۔۔ ۔۔
ایسی اعلی قسم کی لکڑی شاید ہی دنیا کے کسی کنارے میں پائی جائے یہاں یہ ان درختوں کو گننا چاہ رہا تھا۔۔مگر سینکڑوں درختوں کو کون شمار کر سکتا ہے۔۔۔۔
نہر میں پہنچ کر اس نے پاؤں وہاں لٹکائے اور پانی سے لطف اٹھانے لگا۔۔
تو وڈیرے کے آدمی نے بولا حضور لکڑی کاٹ لو گے تو بیچنے کے لئے سواریاں بھی تو رکھنی ہیں۔۔اور سواریاں رکھو گے تو چارہ کہاں سے لاؤں گے۔۔اس پہاڑ کے دوسری طرف ایسے بڑی بڑی چراگاہیں ہیں کہ پورے علاقے کے جانور سالہا سال سے یہاں چر رہے مگر نہ ہمارے مالک نے ان کو روکا نہ یہاں چارہ ختم ہوا۔۔
۔ایک دن کی محنت ہے وہ ساری چراگاہیں آپ کے نصیب میں بھی آ سکتی ہیں۔۔بس ہمت رکھیں اور چلنا شروع کریں۔۔
اس مسافر کے دل میں لالچ جاگا کہ کہ ایک دن کی محنت ہے پھر زندگی ساری کا ارام ہے۔۔اپںے لئے اور آئندہ نسلوں کے لئے۔۔ہمت تو کرنی ہی پڑے گی۔۔اب جب اس نے پہاڑ چڑھنا شروع کیا تو اس کا ایک ایک قدم کئی کئی من کا ہو گیا۔۔سانس پھولنا شروع ہو گئی۔۔دل متلی کی طرف مائل ہو گیا۔۔
پیاس نے شدت پکڑ لی۔۔۔
تو ایک بندے نے کہا حضور آج کے دن پانی حرام سمجھو اور پھر کل سے یہ ساری نہریں تمہاری تابع ہیں۔۔چاہو تو اپنے لئے ایک تفریح گاہ یہاں پر بھی بنوا لینا۔۔تو اس کی لالچ پیاس پر غالب آ گئی اور اس نے چڑھنا شروع کیا۔۔
ہلکے سانس اور چھوٹے قدم لیتا ہوا۔ یہ مسافر بالآخر اوپر پہاڑ پر پہنچا تو
کیا ہی طویل میدان تھا کہ نظر دور دور تک جا کر وسیع ہی واپس لوٹتی تھی۔۔اب سورج مثل اول پر پہنچ چکا تھا۔۔۔۔
اس نے سوچا کہ اب واپس چلنا چاہیے۔۔تو وڈیرے کے ایک بندے نے کہا حضور ہمارا مالک یہاں جو بھی اپنا جانور چرنے کو چھوڑتا ہے اس سے کئی مال وصول کرتا ہے اور یہاں اس علاقے میں سینکڑوں جانور موسم بہار میں چرتے ہیں۔۔تو سوچیں یہ جگہ صرف چراہگاہ نہیں پیسوں کی بارش والی زمین ہے صرف ایک میدان بھی آپ نے احاطہ کر لیا تو آپ کی نسلیں بھی آپ کو دعائیں دیں گے۔۔۔اس مسافر کی لاتیں اب درد کر رہی تھی۔۔چلنا محال ہو چکا تھا ہر دو قدم کے بعد گرنے لگتا۔۔۔پیاس سے ہونٹ سوکھ کر کانٹا بن چکے تھے۔۔
مگر اپنی نسلوں کے لئے اس نے اس میدان کے حصول کا فیصلہ کیا کچھ سفر کیا تھا وڈیرہ بھی وہاں آ نکلا اس نے اس کی یہ حالت دیکھی تو اپنے بندے کہا:- ہمارے مہمان کی یہ حالت ہو گئی ہم کوئی اس کی جان کے دشمن ہیں۔۔اس کو پانی دیا جائے پانی کی شرط ابھی تھوڑی دیر کے لئے ختم ہے۔۔
مسافر نے یہ سنا تو قریب میں ایک جگہ پانی کا ایک حوض بنایا گیا تھا۔۔۔۔مسافر نے وہاں جب پانی پینا شروع کیا تو اتنا پی لیا کہ آنکھیں بند ہو گئی۔۔پیٹ پھٹنے کو آگیا۔۔مگر پیاس بھجنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔اور زیادہ پانی کی وجہ سے اس کو متلی ہونے لگی۔۔اور اچانک اس کے دل پر ایسا دباؤ پڑا کہ اس کی سانس ہی رک گئی اور مرنے سے پہلے اس نے صرف یہ دیکھا کہ وڈیرہ اور اس کے بندے ایک طرف کھڑے ہنس رہے تھے اور قریب ہی کچھ قبریں تھی جہاں ایک قبر مزید کھودی جا رہی تھی اور سورج غروب کے قریب پہنچ گیا تھا۔۔۔مگر غروب سے پہلے ہی اس کی زندگی ختم ہو گئی اور مسافر اپنے سارےمنصوبوں کے ساتھ خاک میں ملا دیا گیا۔۔۔۔
ہماری زندگی بھی ایسی ہی ہے اپنی جوانی میں کمانا شروع کرتے ہیں۔۔تعلیم کے حصول کے بعد شادی کے لئے کماتے ہیں۔۔پھر بچہ پیدا کرنے کے لئے کماتے ہیں۔۔پھر بچے پالنے کے لئے کماتے ہیں۔۔گاڑی کے لئے کماتے اور پھر گھر بنانے کے لئے کماتے ہیں۔۔اور کسی دن کماتے کمات مر جاتے ہیں۔۔ہم نے سوچ رکھا ہوتا ہے ابھی مشقت اٹھا لیں۔۔ بعد میں آرام کریں گے مگر وہ آرام نصیب نہیں ہوتا اور مر جاتے ہیں۔۔اور زندگی پاس کھڑی ہم پر ہنس رہی ہوتی ہے اور کسی پرانے قبرستان میں ہماری بھی قبر کھود دی جاتی ہے
اور بڑے مکان کی لالچ میں دو گز زمین میں قید کر دیے جاتے ہیں۔۔۔
کیا آپ بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔۔؟؟؟
متین احمد مغل
ایم اے اسلامیات
بدھ، 28 اگست، 2024
free lancer
وہ گھر بیٹھا بیوی کی جھڑکیاں سن رہا تھا۔۔بیوی جو برتن دھوتے ہوئے ہر برتن رکھتے ہوئے زور سے مارتی اور ساتھ ساتھ ایک کڑوی کسیلی بھی سناتی جاتی۔۔۔
کیونکہ بیوی کو خوش کرنے کے لئے صرف چاند تارے ہی نہیں۔۔روٹی بھی لا کر دینی پڑتی ہے۔۔۔اور اس بیچارے کی نوکری چلی جانے کی وجہ سے سسرال سے آئے آٹے پر گزارا کر رہا تھا۔۔
تو ہر نوالے کے ساتھ ایک کڑوی بات بھی ہضم کرنا اس کی مجبوری تھی۔۔
بیوی نے جب بہت تنگ کیا تھا تو اس نے اس نے روٹی وہی چھوڑی اور سسرال سے آئے ہوئے کچھ نقدی میں سے دس نوٹ اٹھائے ہر نوٹ پر ایک ہزار قیمت درج تھی۔۔۔
۔۔
اس نے پرنٹنگ مارکیٹ کا رخ کیا کہ وہاں۔۔۔آج کل سنا تھا کہ مندی ہے تو دو مندے لوگ مل جائے تو کسی ایک کا کام ضرور بن جاتا ہے۔۔۔
پرنٹنگ پریس پر سے اس نے پانچ ہزار کے کچھ اشتہار پمفلٹ بنائے۔۔۔
اور اس پر کچھ تحریر ایسی تھی۔۔
کہ ہمیں ہر قسم کے ہنر مند افراد کی ضرورت ہے۔۔فکس سیلری کے علاوہ کمیشن الگ دی جائے گی۔۔
فارم فل کر کے اس نمبر پر رابطہ کریں اور فارم حاصل کرنے کے لئے وٹس ایپ کریں۔۔۔۔
پانچ ہزار میں پانچ ہزار پمفلٹ مل گئے۔۔۔
اس نے پھر مزدوروں کی بستی کا رخ کیا جہاں مزدور تو ہوتے ہیں۔۔مگر کام کرنے والا کم ہی ملتا ہے۔۔
بڑی مشکل سے حالات سے تنگ آئے ایک مزدور کو کام کے لئے راضی کیا حالانکہ وہ مزدور سمجھ رہا تھا کہ یہ راشن دینے آیا ہے۔۔
بہر حال مزدور نے کام کی حامی اس شرط پر بھر لی کہ ڈبل دیہاڑ دو گے تو کام کروں گا۔۔
دو ہزار مزدور سے طے کیے۔۔
صفحہ چپکانے والی گوند کی بوتل تیار کی۔۔اور قریبی علاقے میں پانچ ہزار پمفلٹ چپکانے کا کام شروع کیا۔۔
رات کے اندھیرے میں ہر گلی میں پمفلٹ لگ چکے تھے۔۔۔۔
اس کے بعد بیوی کے پیسے اب تقریبا کچھ ہی باقی بچ گئے تھے تو اس نے پناہ گاہ میں رات گزارنے کا ارادہ کیا۔۔۔
کیونکہ شادی شدہ بندہ جب بیوی کے پیسوں پر چل رہا ہو تو گھر جانے کا مطلب۔۔۔۔اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہے۔۔
۔۔
اگلے صبح وہ اب مچھلیوں کے انتظار میں تھا۔۔۔۔۔۔
پہلی مچھلی نے رابطہ کیا کہ میں ایک ڈیجیٹل مارکیٹر ہوں۔۔اور کورس بھی بیچتا ہوں۔۔اچھا گزار ہو جاتا ہے مگر پھر بھی چاہتا ہوں۔۔اپنے ہونے والے پوتوں کے لئے مزید چار پیسے کما لوں۔۔
تو آپ مجھے فارم مہیا کریں تاکہ میں محنتی افراد میں اپنی شمولیت کروا سکوں۔۔۔
اس نے پلان کے مطابق پی ڈی ایف کی صورت فارم بھیجا۔۔۔
اور فارم کی آخری لائن میں لکھا تھا۔۔
فارم جمع کرواتے وقت پچاس روپے اس ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں بھیج کر سکرین شارٹ بھی فارم کے ساتھ ضرور بھیجنا۔۔۔۔
یہ فارم کی فیس نہیں صرف پراسیسینگ فیس ہے۔۔۔
ڈیجیٹل مارکیٹر نے فورا ہی پیسہ بھیج کر ملازمت کے لئے ایپلائی کر دیا۔۔۔
زیادہ تر ان لوگوں نے رابطہ کیا جو ڈیجیٹل فیلڈ سے تعلق رکھتے ہیں۔۔کیونکہ یہی لوگ جلد سے جلد، رات سے پہلے ، امیر ہونا چاہتے ہیں۔۔
پانچ ہزار پمفلٹ میں سے چھ سو لوگوں نے رابطہ کیا ساڈے چار سو لوگوں نے پچاس روپیہ بھی بھیج دیا۔۔
بائیس ہزار پانچ سو روپیہ اس نے ایک دن میں ہی کما لیا۔۔بیوی کے دس ہزار اس نے الگ کیے اور راشن پانی کا بندوبست کرتے ہوئے جب گھر میں داخل ہوا تو سالے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے پہلے سے ہی موجود تھے۔۔۔
اس نے راشن ایک طرف رکھا۔۔ٹافیاں نکال کر سب سالوں میں تقسیم کی ایک سالے کو اس نے بسکٹ بھی دیا کیونکہ اس نے بھی پچاس روپیہ بھیجا تھا۔۔
بیوی کے دس ہزار اس کو واپس تھمائے کہ ایک بزنس ڈیل تھی۔۔وہ ڈن ہو چکی۔۔اب روز گار لگ چکا۔۔جب تک بارش نہیں برستی اشتہار لگے رہیں گے مچھلیاں پھنستی رہیں گی۔۔
اور ہمارا روزگار چلتا رہے گا۔۔
اور سب کو جوابی میسج یہی کر رہا تھا۔۔آپ کی درخواست پر عمل درآمد جاری ہے جلد ہی رابطہ کیا جائے گا۔۔
اور یوں ایک فارغ آدمی نے فارغ لوگوں سے ہی اپنا روزگار نکال لیا۔۔۔
آپ بھی فارغ ہیں اور کسی دوسرے فارغ سے کمائی کا کورس کر رہے ہیں۔۔تو آپ بھی وہ دریا کی مچھلی ہیں۔۔جو پانی کی طلب میں سمندر سے دور جا رہی۔۔
«متین احمد مغل»
#free lancr
#scam
#fraud
#ahmed
#urdu
منگل، 14 مئی، 2024
لکھاری
جب آپ بازار جاتے ہیں تو ایک ایک چیز کے کئی سٹال اور دوکانیں ہوتی ہیں،مگرآپ اسی سٹال یا دوکان پر رکتے ہیں جس کے بلانے کا انداز آپ کو متاثر کرتا ہے یا جس کے مال لگانے
کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ آپ اپنی خریداری وہاں سے کرتے ہیں۔
اسی طرح مارکیٹ میں وہ سیلر کامیاب ہوتے ہیں جن کے ریٹ لوگوں کو سمجھ آجاتے ہیں،اسی لئے سو روپے کی سیل اور ون ڈالر کا آئیڈیا یہاں بہت کامیاب ہوا کیونکہ بیچنے والے کو بھی ریٹ سمجھانا نہیں پڑتا اور خریدنے والے کو بھی آسانی
سے سمجھ آ جاتی ہے
،
یہاں میں نےسبزی والوں کو دیکھا جب گاہک ان کے پاس سے گزرتا ہے تو اچانک آواز لگاتے ہیں "گر گیا،گر گیا سو کا نوٹ گر گیا" اور پھر گاہک کو اپنی سبزی کی طرف متوجہ کر لیتے ہیں
اسی طرح ہر جگہ آپ کی چیز آپ کے الفاظ سے بکتی ہے اگر آپ کسی کو کہیں سو روپے کی دو،
تو سمجھے گا ایک پچاس کا ہے ،مگر آپ کہیں ایک کے ساتھ ایک فری ہے اور قیمت صرف سو روپیہ تو یہاں فری زیادہ قابل غور ہوتا ہے،
اسی طرح اپنی ہر بات سمجھانے کے لئے الفاظ کا سہارا لینا پڑتا ہے الفاظ ہی کے ساتھ ہزاروں لوگ شہرت کی بلندیوں کو چھو گئے،جیسے کہ پارٹی گرل کےچند الفاظ نے ہی اسے مشہور کر دیا تھا،
اسی طرح الفاظ کی ہی بدولت سیاستدان ہمیں الو بناتے ہیں اور ہم خوشی سے بن بھی جاتے ہیں،موٹیویشنل سپیکر الفاظ کی بدولت ہی ککھ پتی سے لکھ پتی ہو گئے،
میں ایک مرتبہ بازار میں تھا ایک عورت نے دوکاندار کو کہا کہ بہن سمجھ کر مجھےپیسے کم کر دو،،
تو اس بندے کا جواب بڑا دلچسپ تھا کہنےلگا :میرے گھر ماں بہن انتظار میں بیٹھی ہیں کہ بھائی کب پیسے کما کر لائے گا اگر میں نے باہر ہی نئی بہنوں میں بانٹ دیے ،تو گھر میں بہن ۔کو کیا دوں گا،،اس لئے ریٹ میں کوئی کمی نہیں،،۔
تو اس ساری تحریر کا مقصد الفاظ کی اہمیت بتانا ہے اور میری اس تحریر سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ الفاظ کی بدولت ہی آپ نے یہ تحریر پوری پڑھی،اور اگر آپ بھی چاہتے ہیں اپنے لئے، کاروبار کے لئے،کسی بھی قسم کی کہانی دلچسپ تحریریں
لکھوانا تو مجھ سے رابطہ کریں
فی لفظ صرف ایک روپیہ اور تحقیقی تحریر لکھوانے کا ریٹ زیادہ ہو گا،،
شغل میلہ کا ریٹ اس لئے بھی کم رکھا ہے کہ ہم مغل ہیں ، شغل پسند کرتے ہیں
متین احمد مغل
پیر، 13 مئی، 2024
Real Artist
An Artist
Somewhere an artist made a big statue.
When the mayor of the city arrived for inspection, he said after reviewing:-
"He has a big nose."
So the artist picked up some clay from the ground and held his pen-like tool in his hand, and when he reached The Statue, he took his pen close to his nose and dropped the soil in his hand.
It felt like he was thinning her nose even though she hadn't done anything like that."
Then he came to the mayor.
and took him some distance from The Statue
And he said, "Yes, tell me now."
The mayor who was standing just below the statue earlier.
Now his angle changed a bit, so he started to see Stechu's nose right.
He said, "Yes, it's okay now."
And praised his work and paid for it.
And the importance of this artist also increased.
Because the artist is called the one who can receive praise from others for his art.
Because it's not just art. It is also art to present your artwork in a good way.
Because appreciation comes only when your artwork is liked.
Artist
کسی جگہ ایک آرٹسٹ نے ایک بڑا سٹیچو بنایا۔۔