خُرافہ کی کہانیاں – حصہ اوّل (30/1000)
دیہاتی بیٹھک، جلتی انگیٹھی، اور خرافہ کی زبان سے سنیں جنوں کی بستی کے قصے…
1) روشنی کے محل • 2) درختِ خزانہ • 3) اڑنے والے جن • 4) قید خانہ • 5) پہرہ دار جن • 6) جنوں کی شادی • 7) بولتے جانور • 8) پلک کا سفر • 9) جنوں کا مدرسہ • 10) بھٹکی روحیں • 11) الٹا بہتا دریا • 12) بےسایہ بستی • 13) ہنستا قبرستان • 14) آگ کا گھوڑا • 15) الٹی دنیا • 16) جنوں کا بازار • 17) پتھروں کا رونا • 18) الٹے قدم • 19) باتیں کرتے درخت • 20) نہ ختم ہونے والا دریا • 21) ایک دن کی صدی • 22) روشنی کی تلوار • 23) گانے والی ہوا • 24) آسمانی در پہاڑ • 25) خوابوں کا تالاب • 26) آئینوں کی گلی • 27) وقت کا کنواں • 28) خاموش شہر • 29) سایہ فروش • 30) نغمۂ ستارہ
1) روشنی کے محل
خرافہ کہتا تھا: میں نے ایک شہر دیکھا جس کی دیواریں خود روشنی دیتی تھیں۔ نہ تیل جلتا نہ بجلی، مگر گلیاں دن کی طرح جگمگ۔ ایک بوڑھے جن نے سرگوشی کی: "یہ ہمارے صالح بڑوں کی دعاؤں کی چمک ہے، جس دن ہم بد اعمال ہوئے یہ روشنی بجھ جائے گی۔" میں نے ہاتھ دیوار پر رکھا تو دل میں ٹھنڈک اتر آئی؛ جیسے اندھیرے ذہن میں اچانک سمجھ کا دیا جل اٹھے۔
2) درختِ خزانہ
بیابان میں ایک درخت ملا جس پر سونے اور چاندی کے پھل جھولتے تھے۔ میں نے ایک توڑا تو درخت بول اٹھا: "انسان! یہ رزق اُن کے لیے ہے جو دینے میں خوش ہوتے ہیں۔" ساتھ کھڑے جن ہنسے: "جو اسے کھا لے وہ دنیا کے اشکال کو بھلا بیٹھتا ہے۔" میں نے پھل واپس لٹکا دیا تو شاخ نے دعا دی: "لوٹ جا، تیرا رزق تیرے صبر میں ہے۔"
3) اڑنے والے جن
پہاڑ کی دھار پر ایسے جن دیکھے جن کے پروں سے ہوا گرج کی طرح بجتی تھی۔ ایک نے کہا: "ہم پلک جھپکتے میں سمندر پار کرتے ہیں۔" میں نے پوچھا: "انسان کیوں نہیں؟" وہ بولا: "تمہاری ایڑیاں زمین کے قرض دار ہیں؛ جو شکر ادا کرے وہی ہلکا ہوتا ہے۔"
4) قید خانہ
ایک اندھیرے غار میں زنجیروں کی ٹھن ٹھن سنائی دی۔ جنات کا قید خانہ تھا؛ آگ کی کوڑیاں لٹک رہی تھیں۔ پہرے دار نے کہا: "یہ وہ ہیں جو انسانوں کے دل میں ناامیدی بویا کرتے تھے۔" میں نے خوف سے آنکھیں بند کیں تو کہیں سے تلاوت کی آواز آئی اور لویں تھمنے لگیں۔
5) پہرہ دار جن
گاؤں کی ڈھلان پر سایہ سایہ وجود بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا: "ہم وسوسہ ڈالتے ہیں، مگر جہاں اسمِ رب کی گونج ہو وہاں ہمارے پاؤں جلنے لگتے ہیں۔" میں نے دل میں ذکر کیا تو وہ یوں چھٹ گئے جیسے اوس دھوپ میں۔
6) جنوں کی شادی
ویرانے میں شادی کا سماں تھا؛ آسمان گویا قندیل بن گیا۔ دلہن کے ہاتھ پاؤں اپنی ہی روشنی سے جھلمل۔ دولہا نے کہا: "ہم پر زیور نہیں، نیت چمکتی ہے۔" میں نے سوچا: شاید انسان کی خوشی بھی اسی سے روشن ہوتی ہے۔
7) بولتے جانور
ایک وادی میں ہرن بولا: "انسان سب سے زیادہ جلد باز ہے؛ پھل کچا ہو توڑ لیتا ہے۔" جن استاد نے ہنستے ہوئے کہا: "ہماری بستی میں سچ جانوروں کی زبان سے نکلتا ہے، تاکہ انسان انا سے بچ جائے۔"
8) پلک کا سفر
ایک جن نے میرا ہاتھ تھاما: "آنکھ بند کر۔" پلک جھپکی اور ہم سمندر پار؛ جہاز پانی پر نہیں، ہوا میں تیرتے۔ وہ بولا: "ہماری راہ لمحوں کی ہے، مگر حساب سخت گھنٹوں کا۔" میں نے جانا، مختصر رستہ ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔
9) جنوں کا مدرسہ
غار کی دیوار پر استاد آگ سے حرف بناتا اور بچے انہیں دہراتے۔ میں نے پوچھا: "یہ علم کہاں سے؟" جواب آیا: "سننے سے جو ملتا تھا اب بند ہے؛ اب محنت سے لو۔" چنگاریوں میں محنت کی خوشبو تھی۔
10) بھٹکی روحیں
کہر زدہ وادی میں سائے روتے تھے: "ہم نے نہ نیکی پکڑی نہ بدی چھوڑی؛ بیچ میں لٹکے رہے۔" پہرے دار جن نے کہا: "فیصلہ نہ کرنا بھی فیصلہ ہے۔" ہوا نے سرد آہ بھری۔
11) الٹا بہتا دریا
پانی پہاڑ کی چوٹی کی طرف چڑھتا تھا۔ میں نے ہاتھ ڈالا تو بجھی آگ جیسی ٹھنڈک ملی۔ دیہاتی جن نے کہا: "یہ سرکشی کے خلاف بہتا ہے؛ جو غرور کرے، اسے دھارا الٹا لے جائے۔"
12) بےسایہ بستی
دوپہر تھی مگر کسی کا سایہ زمین پر نہ گرا۔ بزرگ جن بولا: "ہم روشنی اپنے اندر پی جاتے ہیں؛ جو اپنے عیب دیکھ لے اسے سایوں کی ضرورت نہیں رہتی۔"
13) ہنستا قبرستان
قبریں خود بخود کھلتیں اور ہنسی کی آوازیں آتیں۔ میں کانپ گیا۔ نگہبان نے کہا: "یہ وہ ہیں جو دنیا سے ہلکے گئے؛ جا کر ہنسی ہوئی کہ بوجھ سب یہیں رہ گیا۔"
14) آگ کا گھوڑا
آگ کا گھوڑا دھاڑا تو ہوا جلنے لگی۔ سوار نے کہا: "ایمان والے کے قریب یہ بجھ جاتا ہے، کیونکہ آگ کے سامنے پانی ٹک نہیں پاتا۔" میں نے دل ٹٹولا کہ میرے اندر کتنا پانی ہے۔
15) الٹی دنیا
درختوں کی جڑیں آسمان میں اور پتے زمین پر۔ گھروں کی چھتیں نیچے اور دیواریں اوپر۔ رہبر جن بولا: "یہ دنیا نیت پر کھڑی ہے؛ نیت الٹی ہو تو سب کچھ الٹا دکھے۔"
16) جنوں کا بازار
دکانوں میں سامان نہیں، خوشبوئیں بکتی تھیں۔ سکے روشنی کے ذرے۔ بیوپاری کہتا: "ہم مہک سے گھر روشن کرتے ہیں، تم تیل سے۔" میں نے سوچا: شاید گھروں کی تاریکی باتوں سے بھی بڑھتی ہے۔
17) پتھروں کا رونا
رات ڈھلے پتھر سسکتے تھے۔ ایک نے کہا: "ہم پر کبھی ناانصافی ہوئی تھی؛ اب ہم گواہ ہیں۔" پہرہ دار بولا: "زمین سنتی ہے، دیر سے سہی مگر جواب دیتی ہے۔"
18) الٹے قدم
ایک بستی کے قدم الٹے تھے؛ لوگ پیچھے چل کر آگے پہنچتے۔ بزرگ نے سمجھایا: "جو ماضی سے سیکھتا ہے وہی مستقبل میں بڑھتا ہے۔" میں نے پیچھے مڑ کر اپنے نقشِ پا دیکھے۔
19) باتیں کرتے درخت
ہوا چلی تو شاخیں بولیں: "ہم پر کبھی ظلم ہوا تھا، اس لیے کرکراہٹ ہے۔" پاس کھڑے جن نے کہا: "توبہ کی بارش پڑے تو لکڑ بھی نرم ہو جاتی ہے۔"
20) نہ ختم ہونے والا دریا
جو برتن میں ڈالو، دریا مزید بڑھتا جائے۔ رکھوالی کرنے والے نے کہا: "یہ قناعت والوں کے لیے ہے؛ لالچی نے پیا تو پیاس بڑھتی ہے۔" میں نے ہتھیلی سے دو گھونٹ نیت کے پیے۔
21) ایک دن کی صدی
میں وہاں ایک دن رہا، مگر گاؤں لوٹا تو مہینے بیت چکے تھے۔ رہبر نے کہا: "ہمارا دن تمہارے سو کے برابر، اس لیے جلدی میں کیے کام یہاں صدیوں گونجتے ہیں۔"
22) روشنی کی تلوار
سپاہی جن نے تلوار کھولی تو کمرہ دن بن گیا۔ وہ بولا: "ایک وار دو کرے؛ مگر ذکر کے قریب یہ خود بجھ جاتی ہے۔" میں نے کلمہ پڑھا تو دھار نرم کپڑے سی بن گئی۔
23) گانے والی ہوا
ایک وادی میں ہوا سور کی سروں میں گاتی۔ کبھی ہنستی، کبھی روتی۔ استاد جن نے کہا: "یہ اُن کی آوازیں ہیں جن کے خواب ادھورے رہ گئے؛ دعا کرو کہ تمہارے خواب خیر سے پورے ہوں۔"
24) آسمانی در پہاڑ
پہاڑ کی چوٹی پر دروازہ تھا؛ کھلے تو ستارے اندر اتر آئے۔ پہرے دار نے کہا: "یہ سرحد ہے؛ اب ہم پر پہرے سخت ہیں۔" میں نے زمین کی طرف دیکھا اور اپنے قدم مضبوط کیے۔
25) خوابوں کا تالاب
تالاب میں پانی نہیں، خواب بہتے تھے۔ جو جھانکے اپنا کل دیکھ لے۔ مجھے روکا گیا: "انسان کل دیکھ لے تو آج جینا بھول جائے۔" میں نے دونوں ہتھیلیوں سے آج کو تھاما۔
26) آئینوں کی گلی
ایک گلی کے دونوں طرف آئینے تھے؛ ہر آئینہ وہ چہرہ دکھاتا جو اندر چھپا ہو۔ کچھ میں میں روشن تھا، کچھ میں دھندلا۔ رہنما نے کہا: "انسان اپنے ارادوں جیسا دی دکھتا ہے۔"
27) وقت کا کنواں
کنویں میں جھانکا تو بچپن کی آوازیں آئیں۔ ڈول ڈالا تو پرانی خوشبوئیں نکلیں۔ بوڑھے جن نے کہا: "وقت پانی ہے؛ ہاتھ سخت ہو تو پھسل جاتا ہے، ہتھیلی نرم ہو تو تھم جاتا ہے۔"
28) خاموش شہر
ایک شہر تھا جہاں بولنا منع؛ سب کام اشاروں سے۔ کاتب جن نے لکھا: "خاموشی شور سے زیادہ سکھاتی ہے؛ مگر دل کی زبان جھوٹ نہ بولے۔"
29) سایہ فروش
بازار میں ایک شخص سایے بیچ رہا تھا۔ بولا: "جس کا ضمیر ہلکا ہو اس کا سایہ لمبا نہیں ہوتا۔" میں نے دام پوچھے تو ہنسا: "سچائی دو، سایہ لو۔" میں خالی ہاتھ لوٹ آیا مگر ذرا ہلکا۔
30) نغمۂ ستارہ
رات کے وسط میں ایک ستارہ گانے لگا۔ پہرے دار نے سر اوپر اٹھایا: "یہ خوشی کی اطلاع ہے؛ کوئی دل آج کینہ چھوڑ آیا۔" میں نے آسمان کے نیچے بیٹھ کر اپنے اندھیروں کو نام لیا اور ایک ایک کر کے چھوڑ دیا۔ ستارہ اور اونچا گانے لگا۔