250 کا پنکھا#
تصویر میں نظر آنے والا پنکھا کچھ سال پہلے 5 ہزار پانچ سو کا خریدا گیا تھا۔۔۔
اس وقت اس کی قدر نہیں کی بس پڑا رہتا تھا۔۔۔
پھر پڑے پڑے اس کا سر دھڑ سے الگ ہو کر ٹوٹ گیا۔۔۔
کوئی ترکیب بھی سمجھ نہ آتی تھی کہ اس کو جوڑا کیسے جائے اور پھر اس کی بیٹری بھی ڈیڈ ہو چکی تھی تو اس پنکھے کو کباڑ سمجھ کر کونے میں رکھ دیا گیا۔۔
بھلا ہو نیک حکومت کا کہ بجلی کا اتنا مسئلہ بنا کہ عقل کے بند دریچے کھلتے چلے گئے بجلی سے بچاو کے لئے جب اس طرح کے پنکھے کا ریٹ معلوم کیا تو پتہ چلا کہ اب یہ پندرہ سے اٹھارہ ہزار کے درمیان ہے۔۔
۔۔
پھر میں نے اسی اپنے کباڑی پنکھے کو عزت و احترام سے اٹھایا "جناب الیکٹریشن صاحب" کے در پر قدم بوسی کے لئے بھیجا۔۔۔
میرا خیال تھا مہنگائی کے اس دور میں جناب نے اگر اس کو ٹھیک بھی کر لیا تو ہزار سے کم بل نہیں بںائیں گے۔۔۔
مگر شاید وہ نیک دل آدمی تھا۔۔اس نے دو سو پچاس روپے میں اس کو ٹھیک کر دیا۔۔
اور پھر اب بیٹری کا مسئلہ اس طرح حل کیا کہ موٹر سائیکل کی ایک نئی بیٹری کسی زمانے میں ہارن بجانے کے لئے موٹر سائیکل میں لگائی تھی۔تاکہ غافل قوم کو جگایا جا سکے۔۔
۔لیکن اس قوم کو تو خان اور شہباز شریف نے مل کر زور لگایا تب نہیں جاگے تو ہمارے ہارن سے کس طرح جاگتے تو وہ بیٹری اس پنکھے میں لگا دی۔۔تاکہ بجلی جائے مگر ہم بھی اپنی قوم کی طرح مزے سے سوتے رہیں۔۔۔
ہمارے جاگنے سے کیا فرق پڑنا ہے۔۔۔
اب سر اور دھڑ کو جوڑنے کا مسئلہ تھا تو ایک ویڈیو میں دیکھا کہ ایک بندے کے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر اس پر ٹیپ کو اس
طرح لپیٹا گیا کہ وہ بندہ دونوں جڑے ہاتھوں کا زور لگانے کے باوجود ہاتھ الگ نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔
پھر میں نے بھی پنکھے کے سر اور ڈنڈے کو جوڑ کر ایسی ٹیپ لگائی جیسے سستے عاشق اپنے اس خط کو جوڑتے ہوئے لگاتے ہیں جس کو ان کی محبوبہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیتی ہے۔۔۔۔
۔۔
اس سارے عمل میں میری جیب سے صرف ڈھائی سو روپے گئے اور میں ڈھیروں ان گناہوں سے بچ گیا جو عوام بجلی جانے کے بعد حکمرانوں کو یاد کر کے کماتی ہے۔۔۔
آپ کے پاس بھی اگر کوئی فالتو کاٹھ کباڑ پڑا ہے تو اس کو نکالیں جوڑیں اگر خود نہیں استعمال کر سکتے تو کسی اور کو دے دیجیے۔۔شاید آپ کا کباڑ کسی دوسرے کے لئے سونا ہو۔۔۔
بےنام لکھاری
مولانا متین احمد